جمعرات، 6 فروری، 2014

حرف تمام:


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٩ذی الحج ١٠ھ بمطابق فروری ٦٣٢ کو اپنے پہلے اور آخری حج کے وقت خطبہ حجة الوداع میں وحدت انسانی کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا "اے لوگو جو کچھ میں کہوں اسے غور سے سنو شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی یہاں تم سے ملاقات نہ ہو سکے اے لوگو اللہ کا ارشاد ہے انسانو ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں گرہوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت و اکرام والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے- تمھارا رب بھی ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہے یاد رکھو نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے ہاں افضلیت اور بزرگی کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے- انسان سارے ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے وہ مٹی سے بنائے گئے اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبے، سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں بس بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات اعلیٰ حاله باقی رہیں گی" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا "لوگو ایسا نہ ہو اللہ کے حضور تم اس طرح آؤ کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہو اور سامان آخرت دوسرے لوگ لے کے پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو اللہ کے سامنے میں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا- لوگو اللہ نے تمہارے جھوٹے غرور کو ختم کرڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر اور شیخی بگھارنے کی کوئی گنجائش نہیں- طبری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجة الوداع کو تعلیمی حج قرار دیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے دوران اسلامی اصول متعین فرمائے جن کی رو سے حاجیوں کیلئے منیٰ کو قربان گاہ قرار دیا گیا- آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربان کرنے کی نیت فرمائی جن میں سے چند اونٹ آپ نے خود اپنے دست مبارک سے ذبح فرمائے اور باقی اونٹوں کے ذبح کی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپی تھی- اسلام میں ١٠ذی الحج کو تمام امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سنت ابراہیم علیہ السلام کو واجب قرار دیا گیا ہے- دنیا بھر میں مسلمان اس دن کو عید الاضحیٰ کے طور پر مناتے ہیں عید الاضحیٰ کو عرف عام میں عید قرباں کہا جاتا ہے جو ہم اللہ کی راہ میں حلال جانور دنبہ، بکرا، گائے، بھینس اور اونٹ ذبح کرکے مناتے ہیں اس طرح ہم اس عظیم الشان جذبۂ قربانی کو یاد کرتے ہیں جس کو ہمارے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر قربان کر دینے پر آمادگی سے رہتی دنیا کیلئے مثال بنا دیا-
                                                  غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
                                                   نہایت اس کی حسین، ابتداء ہے اسمٰعیل
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ حجة الوداع میں نسب پر قائم رہنے کی بھی تاکید فرمائی آپ کی تعلیمات کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ نسب اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کے معنے یہ ہرگز نہیں کہ صرف نسب کو طرۂ امتیاز بنا کر کسی کو ادنیٰ و اعلیٰ قرار دے دیا جائے- قبیلۂ قریش عرب میں قبل از ظہور اسلام معزز و محترم تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قبیلے سے تعلق کی وجہ سے عالم اسلام میں قبیلۂ قریش محترم ٹھہرا- قبیلۂ قریش میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے وہ فضیلت والے ٹھہرے اور جو آپ پر ایمان نہیں لائے وہ آج نسبی تعلق رکھتے ہوئے بھی بےنام و نشان ہیں اسی طرح قریش کی دیگر شاخیں ہاشمی، صدیقی، فاروقی، عثمانی، سید اور لودھی وغیرہ آپ کی نسبت سے معزز و محترم ہیں اور ان میں زیادہ فضیلت والے وہ ہیں جو زیادہ متقی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے پاسدار ہیں جو آپ سے وفا کے رشتے کو زیادہ بہتر انداز سے نبھا رہے ہیں-
                                               کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
                                               یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرےہیں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں