پیر، 13 جنوری، 2014

عربوں کے دوسری اقوام عالم سے روابط:

یہ درست ہے کہ تین طرف سے سمندر نے اور ایک طرف صحرائے نفوذ نے جزیرہ نمائے عرب کا پیوند زمانے سے جدا کر رکھا ہے تاہم جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ وسیع تر تناظر میں یہ جزیرہ نما ایک تضاد بھی پیش کرتا ہے اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اثرات ایک دوسرے تک منتقل کرنے میں ایک اہم واسطے کا کردار بھی ادا کرتا رہا ہے اور ظاہر ہے ایسا کرتے ہوئے یہ سرزمین خود بھی مختلف النوع ثقافتوں کے اثرات سے کچھ حد تک متاثر ہوئی ہو گی- اس بنیادی تضاد کے بہت سے پرتو قدیم عرب کی تاریخ پڑھتے ہوئے سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہرچند عربوں کی ایک بڑی اکثریت تہذیب و تمدن سے دور خانہ بدوشی اور صحرا نشینی کی زندگی بسر کر رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ عرب معاشرہ من حیث الکل کئی وسیلوں سے اس وقت کے عظیم ترین تمدنوں سے مربوط بھی تھا الغرض یہ تصور کرنا درست نہ ہوگا کہ جس سرزمین کی سرحدیں وقت کی دو عظیم طاقتوں ایران اور روم سے ملتی ہوں اور جس کے بالکل متصل قدیم ترین ادوار میں اشوریوں، بابلیوں اور کلدانیوں کی مشہور تہذیبیں پروان چڑھیں ہوں اور حمورابی کا مجموعہ قوانین تشکیل دیا گیا ہو اس کی عقلی زندگی ان بیرونی اثرات سے یکسر بے علاقہ ہوگی حقیقت بھی یہی ہے کہ عربوں کا ادب اور ان کی زندگی اجنبی اثرات سے خالی نہیں- یہ اثرات ان کے ہاں نمایاں اور باقاعدہ نہ تھے بلکہ سرسری اور بے ترتیب تھے اور نمایاں حیثیت ان کی اپنی صحرائی و قبائلی ثقافت کو حاصل تھی علاوہ ازیں بیرونی ثقافت کا اثر حضری زندگی پر زیادہ اور بدوی زندگی پر کم کم تھا- کوئی بھی قوم دوسری اقوام سے جن جن وسیلوں سے اثرات کشید کرتی ہے ان سب کی مکمل فہرست تیار کرنا قریب ناممکن ہوتا ہے کیونکہ تفصیلات بہت دقیق ہوتی ہیں تاہم ان میں بعض وسیلے بہت نمایاں ہوتے ہیں عربوں کا دیگر اقوام سے رابطہ اور اجنبی ثقافتوں سے اثر پذیری میں تجارت اہم وسیلہ رہی ہے-
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا مکہ میں قدیم بازار "شوق اللیل "
 سرزمین عرب قدیم ترین زمانوں سے ایک اہم تجارتی رہگذر رہی ہے پہلے پہل جب اہل یمن عروج پر تھے تو عنان تجارت پر قابض تھے بعد ازاں جب ان پر زوال آیا تو تجارت حجاز کے حصے میں آگئی- جزیرہ نمائے عرب کے وسط کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے اس لیے تجارتی شاہراہیں جزیرہ نما کے کناروں پر پھیلی ہوئی تھیں ایک شاہراہ حضرموت سے بحراحمر کی طرف آکر حجاز سے گذرتی ہوئی شام کو جاتی تھی دوسری حضرموت سے دوسری جانب عمان اور بحرین سے ہوتی ہوئی صور تک پہنچتی تھی ظفار سے لوبان وغیرہ بیرون عرب لے جایا جاتا اور باہر سے مختلف درآمدات یمن کو جاتی تھیں علاوہ ازیں ہندوستان کا سامان تجارت مثلاً نادر قسم کے جانور جیسے لنگور اور مور وغیرہ بھی خشکی کے راستے عرب سے ہوتا ہوا فراعنہ مصر کو جایا کرتا تھا جیسا کہ اوپر ذکر ہوا یمن کے بعد تجارت کی باگ ڈور اہل حجاز کے ہاتھ آئی، مکہ یمن سے شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ کے تقریباً وسط میں واقع تھا اور چاہ زمزم کے سبب سے ایک اہم پڑاؤ بھی تھا علاوہ ازیں حرم کعبه کو مذہبی تقدس حاصل تھا یہ تقدس دور جاہلیت میں بھی موجود تھا جس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے- قریش کے تاجر حبشہ کا سامان تجارت بھی شام کی منڈیوں میں لے جایا کرتے تھے ان کے قافلے بہت عظیم الشان ہوتے تھے اور ظاہر ہے کہ ان میں ترجمان کی غرض سے ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہونگے جو غیر زبانوں سے آگاہی رکھتے ہوں پھر یہ کہ قریش کے چنے ہوئے اعلیٰ ذہن لوگ ان قافلوں میں شامل ہوتے تھے جو بانظر غائر بیرونی ثقافتوں کا مشاہدہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے اس تجارتی شاہراہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی پہلے بارہ برس کی عمر میں جناب ابوطالب کے ہمراہ اور بعدازاں پچیس برس کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اموال تجارت کے سلسلے میں شام کا سفر اختیار کیا-
صحرانشین قبائل بھی ان تجارتی سرگرمیوں سے یکسر لاتعلق نہ تھے تجارتی قافلے لوٹ مار سے محفوظ رہنے نیز راستہ معلوم کرنے کی غرض سے ان قبائل کو اجرت پر راہنما یا محافظ بنا لیا کرتے تھے ان پڑھ اور لوٹ کھسوٹ کے عادی ہونے کے باوجود یہ لوگ اس لیے قابل اعتماد تھے کہ اپنی بات کے پکے تھے اور خلاف پیمان کوئی عمل نہ کرتے تھے ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ اگر کسی زیادہ طاقتور قبیلے کے حملے کے باعث وہ خود کو قافلے کی حفاظت سے قاصر پاتے تو اجرت لوٹا دیتے تھے- مختصر یہ کہ ان تجارتی سرگرمیوں کے باعث عربوں کا دوسری اقوام اور پھر آپس میں جو اختلاط رہتا تھا اس کے نتیجے میں بیرونی ثقافتوں کا نقش عربوں کی زندگی میں شامل رہا- عرب میں ایرانی، رومی، مصری اور حبشی زبانوں کے علاوہ ہندی کے مشابہ الفاظ جن کا ذکر آگے آئے گا داخل ہونے کا سبب یہی تجارتی رابطہ تھا-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں