ہفتہ، 11 جنوری، 2014

عرب مستعربہ "قوم قریش"

قوم قریش یا قبیلہ قریش کو جزیرہ نمائے عرب میں نہایت معزز حیثیت حاصل تھی جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے- قریش وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں ایک روایت کے مطابق آپُ کے جد اعلیٰ نضر بن کنانہ کو پہلے پہل قریش پکارا گیا- نضر بن کنانہ کا لقب قریش یوں ہوا کہ ایک دن نضر بن کنانہ اپنی قوم کی چوپال میں آیا تو موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا دیکھو وہ نضر ایک بڑا زبردست طاقتور معلوم ہوتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قریش کا یہ نام ایک بحری جانور کے نام پر رکھا گیا جسے قریش کہا جاتا تھا جو تمام دوسرے بحری جانوروں کو کھا جاتا تھا اور چونکہ وہ بحری جانوروں میں سب سے زیادہ قوی اور طاقتور تھا اس لئے نضر بن کنانہ کو اس سے مشابہت دی گئی- بعض روایات میں نضر بن کنانہ کے پوتے فہر بن مالک کی وجہ سے اس خاندان کا نام قریش ہوا فہر بن مالک عرب میں سب سے طاقتور تھا- یہ لوگ سمندر سے قریب رہنے کی وجہ سے یقیناً سمندری مخلوق سے واقف تھے اس لیے اپنے آپ کو قریش کہلوایا ہو گا- یہ بھی روایت ہے کہ قریش کے تاجر پیشہ ہونے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا ہو کیونکہ "نقرش" کے معنی تجارت کے ہیں- بہرحال اس امر پر تمام مورخین متفق ہیں کہ قریش عرب کی سرزمین پر ایک نہایت طاقتور خاندان، قبیلہ اور قوم تھی- تجارت پیشہ ہونے کی وجہ سے قبیلہ قریش ٹولیوں اور گروہ کی شکل میں جزیرہ عرب میں پھیلی ہوا تھا- قصیٰ بن کلاب نے اس پھیلے  اور بکھرے  ہوئے قبیلے کو مکہ کے گرد و نواح میں جمع کرکے ایک قوم کی شکل میں یکجا کر دیا- قصیٰ بن کلاب کا اصل نام زید تھا قوم قریش کو جمع و یکجا کرنے کی وجہ سے قصیٰ پکارا جانے لگا جس کے معنے ہیں جمع و یکجا کرنے والا- قصیٰ بن کلاب نے نہ صرف قریش کو یکجا کیا بلکہ ایک شہری حکومت بھی قائم کی جو مکہ کے گرد و نواح میں تھی پوری قوم اس کے قوانین کی پابند تھی جو قصیٰ بن کلاب نے نافذ کیے تھے یہ قوانین انھوں نے ہر معاشرتی ضرورت کیلئے وضع کیے تھے مثلاً تجارتی قافلے اور لیں دین، جنگی حکمت عملی اور آداب، حج کے موقعے پر حجاج کی خدمت، لوگوں میں محاسن اخلاق کی تعلیم اور میزبانی بہترین مثالیں ہیں- قصیٰ نے مکہ میں ایک بڑی عمارت تعمیر کروائی جس کا نام "دارالندوہ" رکھا یہاں قریش اپنے تمام امور طے کرتے تھے- جب قصیٰ بن کلاب بہت بوڑھا اور ضعیف ہوا اس وقت تک عبدالدار اس کا سب سے بڑا بیٹا بھی ضعیف ہو چکا تھا البتہ عبدمناف اپنے باپ ہی کے سامنے بڑا معزز شخص ہو گیا تھا اور اسے دنیا کا ہر طرح کا تجربہ ہو گیا تھا اور تیسرا بیٹا عبدالعزیٰ بن قصیٰ تھا- قصیٰ بن کلاب نے اپنے بڑے بیٹے عبدالدار سے کہا میں تجھے اپنی قوم سے ملاتا ہوں اگرچہ وہ شرافت میں تجھ سے بڑھ گئے ہیں مگر جب تک تو کعبے کا دروازہ نہ کھولے ان میں سے کوئی اس میں داخل نہ ہوگا تیرے سوا کوئی دوسرا جنگ کا جھنڈا نہ باندھے گا سب تیرے سقایہ سے پانی پیئں گے حج کے زمانے میں سب تیرے ہاں مہمان ہونگے اور تیرے ہی مکان میں قریش اپنے تمام معاملات طے کریں گے اس طرح قصیٰ بن کلاب نے دارالندوہ جہاں قریش اپنے معاملات طے کرتے تھے عبدالدار کے حوالے کر دیا اور یوں بنو قصیٰ کے مورث اعلیٰ قرار پائے-
رفادہ کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں قریش کچھ مال اپنی آمدنی سے نکال کر قصیٰ بن کلاب کو دیدیتے تھے یہ اس سے حاجیوں کیلئے کھانا پکواتے جس سے الله کے مہمانوں کے طعام کا اہتمام کیا جاتا اور جن حاجیوں کے پاس زادراہ نہ بچا ہوتا تھا ان کی مدد کی جاتی- قصیٰ بن کلاب نے یہ چندہ اپنی قوم پر واجب کر دیا تھا اور کہا تھا "اے قریش تم اللہ کے ہمسائے اور اس گھر یعنی حرم والے ہو، حاجی اللہ کے مہمان اور اس گھر کے زائر ہیں اس لئے وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ عزت کے ساتھ ان کی مہمان داری کی جائے تمھیں چاہیئے کہ زمانہ حج میں ان کیلئے کھانے اور پینے کا انتظام کرو" انھوں نے قصیٰ کا کہا مانا وہ اس کیلئے ہر سال اپنے مال میں سے کچھ حصہ بچا کر قصیٰ کو دیدیتے تھے یہ دستور قوم قریش میں قصیٰ بن کلاب کے بعد عبدالدار بن قصیٰ سے لیکر تمام عہد جاہلیت میں برابر قائم رہا اور عہد اسلام میں بھی جاری رہا چنانچہ اب تک جاری اور ساری ہے اب یہ کھانا زمانۂ حج میں حکومت وقت ہر سال منیٰ میں پکوا کر حاجیوں کو مہیا کرتی ہے- قصیٰ بن کلاب نے اپنی زندگی ہی میں یہ تمام ذمہ داریاں عبدالدار کے سپرد کر دی تھیں اور پھر قصیٰ بن کلاب بھی اس کے کسی انتظام یا حکم میں دخل نہیں دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد اس کے سب بیٹے ان فرائض و ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے -
عبدمناف بن قصیٰ کے چار بیٹوں میں ایک حضرت ہاشم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا بھی تھے جنھوں نے اپنے دادا قصیٰ بن کلاب کے وضع کردہ انتظامی ذمہ داری کو بہت خوش اسلوبی سے نبھایا ہاشم کا نام عمرو تھا ہاشم اس لیے مشہور ہوا کہ مکہ میں سب سے پہلے روٹیوں کو شوربے میں توڑ کر "ثرید" اپنی قوم کو کھلایا تھا- قوم قریش قحط اور افلاس کی وجہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئی تھی ہاشم فلسطین گئے اور وہاں سے بہت سا آٹا لے کر مکہ آئے اس کی روٹیاں پکوائیں اور بہت سے جانور ذبح کرکے اس کا شوربے والا سالن تیار کروایا اور روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو کر ثرید تیار کرواکر اپنی قوم کی دعوت کی جس کی وجہ سے قریش نے ہاشم کا لقب دیا- ہاشم نے بین الاقوامی تجارت کا آغاز کیا گرمی اور سردی کے موسم میں الگ الگ تجارتی قافلے روانہ کئے جاتے تھے جو مختلف سمتوں میں سفر کرتے ہوئے تجارتی سامان کی خرید و فروخت کیا کرتے تھے اس طرح مکہ دنیا کا تجارتی مرکز بن گیا تھا جس سے قریش میں دولت کی فراوانی ہوئی جو قریش کی خوشحالی کا باعث بنی تو دوسری طرف قریش دنیا کے دیگر ممالک میں پہچانے جانے لگے قرآن میں ایک مختصر سورت "قریش" کے نام سے نازل ہوئی-
ارشاد باری تعالیٰ ہے چونکہ قریش مانوس ہوئے جاڑے اور گرمی کے سفروں سے لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا- اس سورت کی تفسیر میں علماء اور مفسرین کہتے ہیں کہ سورت کا لفظ "ایلاف" الف سے بنا ہے جس کے معنی خوگر اور مانوس ہونے کے ہیں اس کے دوسرے معنی پھٹنے کے بعد مل جانے کے یا کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں یہ لفظ اردو میں بھی بولا جاتا ہے الفت اور مالوف اسی لفظ سے ماخوز ہیں یہ تعجب کا اظہار کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے- پھر ان کی تجارت کا ذکر ہے جو یہ گرمی اور سردی کے موسم میں کیا کرتے تھے گرمی اور سردی کے سفر سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی سفر شام و فلسطین کی جانب ہوتے تھے وہ نسبتا ٹھنڈے علاقے تھے اور سردی کے موسم میں سفر وہ جنوبی عرب کے اطراف کیا کرتے تھے کیونکہ وہ گرم علاقے تھے پھر تیسری آیت مبارکہ میں فرمایا کہ قریش کو یہ نعمت اس گھر کی بدولت حاصل ہوئی- وہ یہ جانتے تھے کہ اس گھر کے رب نے ان کو اصحاب فیل سے بچایا انھوں نے ابرہہ کی فوج کے مقابل مدد مانگی تھی اس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب کے صحرا میں منتشر تھے تو ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی وہ عام قبائل کی طرح بکھرے ہوئے تھے مگر جب بیت اللھ کے گرد جمع ہو گئے اور اس کی خدمت انجام دینے لگے تو وہی قریش پورے صحرائے عرب میں محترم ہو گئے پھر آخری آیت میں نشاندہی کی گئی کہ جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں تھا یہ محفوظ رہے- اس وقت پورے عرب کا یہ حال تھا کہ کوئی نفس چین سے نہیں سو سکتا تھا کہ کب کوئی گروہ ان پر شب خون مارنے والا ہے کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے ہر وقت ڈاکہ زنی کا خطرہ موجود تھا مگر قریش کے قافلے آسانی سے تجارتی مقاصد کے لیے سفر کیا کرتے تھے- اصحاب فیل کے واقعے کے بعد قریش کی دھاک بیٹھ گئی تھی ہر قبیلہ یہ فرض کئے ہوئے تھا کہ اللہ ان پر خصوصی طور پر مہربان ہے اس آیت مبارکہ میں ایک اور واضح اشارہ مل رہا ہے کہ جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے یہاں بسنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے- قریش کی بھلائی اتحاد اور کعبة اللہ کے تعلق میں مضمر ہے-
قرآن کریم میں مذکور اقوام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ روئے زمیں پر بہت سی قومیں پیدا ہوئیں ان پر انبیاء مبعوث ہوئے پھر انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا گیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل ان پر صرف توحید کی تعلیم تھی اس مختصر سی تعلیم میں بھی انھوں نے شرک کو شامل کر لیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا- جنھوں نے پیغمبر کا انکار کیا وہ قومیں نیست و نابود ہو گئیں جس نے پیغمبر کا ساتھ دیا اور ان کی تعلیمات کو مانا وہ عذاب الٰہی سے بچ گئیں صرف قریش ہی وہ واحد قوم ہے جو خوش قسمتی سے مکمل طور پر محفوظ رہی جو یقیناً دعائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا سبب ہے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں