پیر، 13 جنوری، 2014

عرب کے معاشرتی کوائف:


عرب معاشرہ قدم ترین زمانوں سے دو واضح حصوں میں منقسم چلا آتا ہے "اہل حضر" یعنی مقیم اور "اہل بدو" خانہ بدوش- مختصراً انھیں بدو اور حضر کہا جاتا ہے علاوہ ازیں "اہل المدر" مٹی گارے والے اور "اہل الوبر" پشم والے بھی ان ہی کے لقب ہیں کیونکہ بدو پشم کے بنے ہوئے خیموں میں رہتے ہیں اور حضری مٹی گارے سے بنے گھروں میں رہتے ہیں یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ بدو اور حضر کی یہ تقسیم بنیادی طور پر نسلی نہیں بلکہ معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی ہے جہاں جہاں کنوؤں، چشوں اور بارانی پانی سے کھیتی باڑی ممکن تھی یا کھجوروں کے جھنڈ معاشی کفالت کے ضامن تھے وہاں مستقل سکونت رکھنے والی آبادیاں وجود میں آ گئیں تھیں- سرزمین عرب کا تین چوتھائی حصہ چونکہ پانی کی قلت کے سبب ناقابل کاشت ہے اور اسی نسبت سے حیواناتی زندگی بھی کم ہے اور شکار کو زریعہ معاش بنانا ممکن نہیں لہٰذا خانہ بدوشی کا راستہ باقی رہ جاتا ہے یعنی جانور پال کر گھاس چارے کی تلاش میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے رہنا-
بدو و حضر کے بارے میں اکثر محققین کی رائے یہ ہے کہ ان میں اولیت بدوی زندگی کو حاصل ہے اور بدوؤں ہی میں سے بعض قبائل نے زرخیز مقامات پر سکونت اختیار کر کے اہل حضر کی صورت اختیار کر لی چنانچہ اہل حضر اب تک قبیلوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں جو کہ ان کے بدوی ماضی کا سراغ مہیا کرتے ہیں بدوی سے حضری کی طرف اس سفر کی دلیل خانہ بدوش قبائل کے مختلف مدارج میں ملتی ہے چنانچہ بدو اور حضر کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ اور بھی پایا جاتا ہے مثلاً وہ بدو جو جانور پالنے کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کر لیتے ہیں اور وہ جو صرف بھیڑ بکریاں پالتے ہیں لہٰذا شہری آبادی کے نزدیک قیام کرتے ہیں ان کے مقابلے میں اونٹ پالنے والے زیادہ آزاد، خود سر اور طاقتور ہوتے ہیں اور صحرا کے اندر دور تک ان کی رسائی ممکن ہوتی ہے یہ لوگ زیادہ پکے خانہ بدوش ہوتے ہیں- بدوی سے حضری کی طرف یہ سفر آج بھی جاری ہے اور جدید دور میں اس کی رفتار تیز تر ہو گئی ہے چنانچہ شتربانوں کا طبقہ روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے اور بدوؤں کی اکثریت صحرا کے نزدیکی کناروں پر مرتکذ ہوتی جا رہی ہے- بدوی حضری گرہوں کی یہ تقسیم اگرچہ حصول معاش اور جغرافیائی بنیادوں پر استوار ہے تاہم دونوں کے طرز معاشرت میں واضح فرق ہے دونوں کی ثقافت بالکل جداگانہ خطوط پر آگے بڑھتی ہے اور دونوں کے مزاج، خیالات اور طرزفکر الغرض زندگی کے تمام تر سانچے ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں- بدوؤں کی نگاہ میں جو اب کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں، حضری زندگی ایک ذلت آمیز بوجھ ہے جس سے وہ سخت گھبراتے ہیں اور صحرا کی وسعتوں میں آزادانہ بودوباش کے شیدائی ہیں دوسری طرف اہل حضر کیلئے خانہ بدوشانہ زندگی کا تصور ہی جانکاہ ہے وہ بدوؤں کو جاہل اور گنوار خیال کرتے ہیں- بدو آزاد منش ہوتے ہیں ان کے اپنے قبائلی قانون کے علاوہ کوئی اور قانون ان پر لاگو نہیں کیا جا سکتا- حضری آسانی سے مطمیع فرمان بنائے جا سکتے ہیں اور ان میں ریاست کی تشکیل کے بہتر امکانات پائے جاتے ہیں صحرا نشینوں کی زندگی میں اولین حوالہ خون کا حوالہ ہوتا ہے زمین ثانوی حیثیت رکھتی ہے جس کی انفرادی ملکیت کا تصور ان کے ہاں نہیں پایا جاتا بلکہ مخصوص چراگاہیں یا چشمے مخصوص قبائل کی اجتماعی ملکیت سمجھے جاتے ہیں جن کی خاطر پورا قبیلہ کٹ مرتا ہے- اہل حضر میں اگرچہ ماضی کی یادگار کے طور پر قبیلوں کی نسبتیں باقی رہتی ہیں تاہم ان کے ہاں زمین کا حوالہ زیادہ نمایاں ہونے لگتا ہے اور زمین کی انفرادی ملکیت کا تصور پایا جاتا ہے- بدو کی دولت کا شمار اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی صورت میں کیا جاتا ہے جبکہ حضری کے ہاں کھجور کے باغوں اور قابل کاشت زمینوں سے دولت کا اندازہ کیا جاتا ہے- یہ حقیقت ہے کہ بدو کے ہاں صحرائی بودوباش سے دلی ربط اور مدنیت سے بیزاری پائی جاتی ہے تاہم یہ خیال کرنا درست نہیں کہ وہ محض بےمقصد آوارگی کا خواہاں ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز حیات صحرائی تقاضوں کا نہایت منطقی ردعمل ہے-
لباس، ہتھیار اور بعض دیگر صنعتوں کے حوالے سے بدوی کو بہرحال حضری سے تعلق رکھنا پڑتا ہے لیکن بدو نے زراعت اور کاشتکاری کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور شیوۂ مردانگی کے برخلاف سمجھا ہے اپنی ضرویات اہل حضر سے حاصل کرنے کیلئے یا تو وہ تبادلۂ جنس کرتا ہے یا پھر لوٹ مار، چنانچہ ان کے ہاں تاجر اور قزاق کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے چڑھائی کرنا اور ڈاکہ زنی اس کی ضرورت بھی ہے اور دلپسند مشغلہ بھی، اس لیے قبائل میں مار دھاڑ کا بازار گرم رہتا تھا- بدو بیک وقت نہایت آزاد اور ازحد پابند ہوتا ہے انفرادی طور وہ تندخو، غیور، آزاد، منہ پھٹ اور جلد بھڑک اٹھنے والا ہوتا ہے صحرا کی بودوباش نے اسے کبھی محکوم نہیں بننے دیا لہٰذا اس کے ہاں بے دھڑک اور بے جھجھک زندگی بسر کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے حتیٰ کہ قبیلے کے سردار یا شیخ سے ایک عام فرد قبیلہ کی ملاقات بھی کسی قسم کے رسمی آداب کی پابند نہیں ہوتی لیکن دوسری طرف قبیلے کی وحدت اس قدر اہم ہے کہ شہد کے چھتے کی مانند اس میں فرد کے ذاتی رجحانات بے معنی ہیں قبیلے سے الگ ہو کر صحرا میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہے اس لیے بہر رنگ و بہر طور اسے قبیلے کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے خواہ ذاتی طور اسے اس فیصلے سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو- اگر قبیلہ کسی فرد کو عاق کردے یا وہ قبیلے کے کسی فرد کا خون کرکے فرار ہو جائے تو زمیں و آسمان اس کیلئے تنگ ہو جاتے ہیں- ایسا شخص "طرید" دھتکارہ ہوا ہوتا ہے اسے لامحالہ کسی دوسرے قبیلے کے ساتھ خود کو منسلک کرنا پڑتا ہے اور وہاں وہ "دخیل" باہر سے آیا ہوا ہوتا ہے- بدو کے ہاں خون کا حوالہ اہم ترین ہوتا ہے اور وہ نسب کو بہت اہمیت دیتا ہے ہر شخص کے ساتھ ابن فلاں کا ذکر ضروری سمجھا جاتا ہے اور قبیلے کا مجموعی نسب پشت در پشت یاد رکھا جاتا ہے چنانچہ دور جاہلیت میں علم الانساب عربوں کے اسی میلان کا مظہر تھا قبیلہ پدری نظام کے تحت چلتا ہے اور بنو فلاں کے کے نام سے معروف ہوتا ہے- نامساعد حالات میں زندگی بسر کرنے کے باعث بدو کی طبیعت میں درشتی اور اکھڑ پن پایا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عہد پاسداری، مہمان نوازی اور عشق و محبت کے لطیف احساسات بھی اس کی سرشت میں شامل ہیں اب سے نصف صدی پہلے تک بھی بدو کی معاشرت عین ویسی ہی تھی جیسی صدیوں پہلے تھی- اگرچہ بدو و حضر کے قدیم فرق کی نمائندگی صحرا کی وسعتوں اور چھوٹی بستیوں میں اب بھی کسی حد تک باقی ہے لیکن گزستہ چالیس پچاس برس میں تغیر کی رفتار اچانک اتنی تیز ہو گئی ہے کہ جو کچھ صدیوں میں تبدیل نہ ہو سکا تھا وہ دیکھتے دیکھتے بدلتا چلا جا رہا ہے پٹرول کی دریافت کے بعد سے دولت عام ہو گئی ہے اور شہروں میں پختہ سڑکوں، اعلیٰ سے علیٰ موٹرکاروں، ائیرکنڈیشنڈ مکانوں، جدید ترین ہوٹلوں، ہوائی جہاز، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ جیسے ذرائع کی فراوانی ہے- کھجور پر انحصار ختم ہو گیا ہے اور بند ڈبوں میں باہر سے آئے ہوئے پھل، سبزیاں، دوھ اور گوشت اپنی بہار دکھا رہے ہیں الغرض صحرائی وہ سخت جان روایات جو صدیوں اپنی اصل پر باقی رہیں اب کوئی دن کی مہمان نظر آتی ہیں-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں