ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

عرب میں نباتاتی اور حیواناتی زندگی:

بعض محققین جن میں اطالوی اور جرمن محققین قابل ذکر ہیں، کا خیال ہے کہ قدیم تاریخی ادوار میں عرب میں پانی اور سبزے کی قلت نہ تھی بلکہ برفانی ادوار کے بعد رفتہ رفتہ یہاں کی زمین سے نمی اڑتی گئی اور خشک صحرا پھیلتے گئے بعض دوسرے محققین مثلا" چیکوسلواکی محقق نے اس نظریے کو رد بھی کیا ہے اس کی راۓ کے مطابق جزیرہ نما کی آب و ہوا میں کوئی معتدبہ تبدیلی نہیں آئی ہاں انتظامی بے اعتنائی کے باعث صحرا کی وسعت میں اضافہ ضرور ہوا ہے دونوں گرہوں کے دلائل پرزور اور قابل غور ہیں البتہ ۱۹۲۳ ء میں جرمن محقق Bernard Moritz کی نباتاتی اور حیواناتی نوعیت کی تحقیق نے اول الذکر نظریے کو تقویت پہنچائی اس کے تحقیقی نتائج کے مطابق عرب کی نباتاتی اور حیواناتی زندگی دور بہ دور انحطاط کا شکار ہوئی جس کا سبب خشکی میں اضافہ اور قابل کاشت زمینوں تک صحرا کا پھیلتے چلے جانا ہے عرب کی نباتاتی اور حیواناتی زندگی کا جدید علمی سطح پر مطالعہ ہنوز تشنہء تکمیل ہے قدیم عربی ادب میں پودوں اور جانوروں کی بہت طویل فہرست موجود ہے جس کے تفصیلی جائزے کے لۓ الگ تحقیقی مطالعہ درکار ہے بہت سے پودوں اور حیوانوں کے ساتھ مخصوص ادبی روایات و تلازمات بھی وابستہ ہیں عرب کے نباتات اور حیوانات کی بہت سی انواع و اقسام اب معدوم ہو چکی ہیں مثلا" حیوانوں میں شتر مرغ "نعام" کا ذکر قدیم ادب میں عام ہے اسے سبک روی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۱۹۳۰ ء تک یہ خاصی تعداد میں موجود تھے لیکن اس کے پروں کے حصول کے لۓ بڑے پیمانے پر اس کا شکار کیا جانے لگا حتی' کہ ۱۹۴۴ ء کے لگ بھگ اس کی نسل ختم ہو گئی ـ
نیل گائیں "بقرالوحش" یا "مہا" جو قدیم قصائد کی ایک مستقل روایت ہیں شکار کے نتیجے میں شمالی صحرا میں ناپید ہو گئیں ہیں الربع الخالی کے بعض حصوں میں البتہ کہیں کہیں ان کی نسل باقی رہ گئی تھی ۱۹۶۱ ء میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لۓ عالمی سطح پر ایک فنڈ مختص کیا گيا جس کے تحت عرب سے آخری تیس نیل گائیوں میں سے کچھ جوڑے ایری زونا کے Phoenix Zoo بجھوا دیۓ گۓ جہاں ان کی افزائش کی مہم چلائی گئی چنانچہ ۱۹۷۹ ء میں سلطان قابوس کے حکم سے عمان میں اس کے لۓ "مشروع المہا العربیہ" (The Arabia Oryx Project ) کا منصوبہ بنایا گیا جو نیل گاۓ کے علاوہ بعض اور معدوم ہوتے ہوۓ حیوانات کا بھی تحفظ کر رہا ہے مثال کے طور پر عربی تیندوا ـ اسی طرح ۱۹۸۶ء میں سعودی عرب میں "الهئية الوطية لحماية الحياة الفطرية" (NCWCD National Commission For Wild Life Conservation And Development) کا قیام عمل میں لایا گیا جو مسلسل اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہے ـ
مختلف نسل کے ہرن جو غول در غول موجود تھے رائفل کی آمد کے بعد تیزی کے ساتھ گھٹتے گئے ببر شیر "اسد" اب معدوم ہے البتہ چیتے "نمر" اور تیندوے "فہد" کسی حد تک موجود ہیں پہاڑی علاقوں میں جنگلی بلاؤ بھی پایا جاتا ہے پہاڑی بکرے "وعل" چرخ یا لگڑ بگا "ضبع" بھیڑیا "ذئب" لومڑی "ثعلب" بندر "قرد" اور گيڈر "ابن آوی'" ہنوز موجود ہیں "ظربان" بلی کی جسامت کا ایک گوشت خور جانور جس کا رنگ سیاہی مائل خاکستری ہوتا ہے "ویر" سبزہ کھانے والا بلی کے برابر تھوتھنی دار جانور جس کا گوشت لذیذ اور پوستین قیمتی ہوتی ہےـ خرگوش "ارنب" گوہ "ضب" اور جنگلی چوہوں میں "یربوع" اور "جراذ" بھی بدستور موجود ہیں پرندوں میں عقاب، باز، کوے، چڑیاں، الو، گدھ، فاختہ، کبوتر، چکور، بٹیر، بلبل، ابابیل، بھٹ تیتر، "قطاۃ" اور ہدہد جس کا ذکر قدیم عربی ادب میں عام تھا قابل ذکر ہیں بہت سے مہاجر پرندوں کی آمدورفت بھی جاری رہتی ہےـ حشرات الارض میں مختلف قسم کے سانپ، بچھو، کنکھجورے، مکڑیاں، چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں اور ٹڈیاں اہم ہیںـ ٹڈیاں صحرانشینوں کے لۓ پسندیدہ غذا کا درجہ بھی رکھتی ہیںـ
 


پالتو جانوروں اونٹ، گھوڑا، بکریاں. خچر، گدھا، بلی، کتا، خصوصا" برق رفتار شکاری کتے "السلوقی" اور گاۓ قابل ذکر ہیںـ ان جانوروں میں اونٹ کو عرب معاشرے میں ہزاروں سال سے مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے جو صرف موجودہ دور میں مشینی وسائل کے مقابلے میں آکر ختم ہوئی ہے مگر آج بھی اندرونی صحرا کا سفر اونٹ کے بغیر ممکن نہیں تاہم بدوی معیشت میں انقلاب کے باعث اب اونٹ کے مقابلے میں بھیڑ بکریاں زیادہ منافع بخش ہو گئی ہیں چنانچہ ان کی تعداد می اضافہ اور اونٹوں کی تعداد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے ورنہ ماضی قدیم ہی نہیں ماضی قریب تک بھی بدوؤں کی زندگی میں اونٹ کی اہمیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا تھاـ وہ اس پر سواری کرتے، خیمے لادتے، دودھ پیتے، گوشت کھاتے، اونٹ کی کھال اور اون سے خیمے اور لباس بناتے اور مختلف کام نکالتے چلے آۓ ہیں اس کا فضلہ ایندھن کا کام دیتا رہا وہ لباس اور دیگر ضروریات خریدنے کے لۓ اونٹ فروخت کرکے رقم حاصل کرتے بلکہ قدیم تر زمانے میں آپس کے لین دین میں خود اونٹ "سکہ رائج الوقت" کا کام دیتا تھاـ شدید پیاس اور ہانی کی نایابی کے وقت بدو اونٹ ذبح کرکے اس کی اوجھڑی سے پانی کا ذخیرہ نکال لیتا تھا اس سبب سے اونٹ کو بدو کا ہمزاد قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اونٹ کے لۓ عربی میں سینکڑوں نام ہیں اور قدیم شعری شہپارے اس کے ذکر سے بھرے پڑے ہیںـ ایک مورخ و محقق Karl Brockelmann نے قدیم عربوں کی زندگی میں اونٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا ہے کہ اونٹ عربوں کی فنی حس کو اس طرح بیدار کرتا تھا جس طرح ویدوں کے زمانے میں ہندوستان کے شعری تخیل کو گاۓ نے برانگخيتہ کیاـ اونٹ کی مختلف نسلیں ہیں جن میں بہترین وہ مانی جاتی ہیں جو زیادہ عرصے تک پانی کے بغیر گزارہ کر سکیں اور اچھی رفتار پر روزانہ طویل مسافتیں طے کر سکیںـ اونٹ بعض اوقات مکمل ایک مہینہ پانی کے بغیر گزار سکتے ہیں اور پانی میسر آجانے پر تیس گیلن تک پانی بیک وقت پی کر آئندہ کے لۓ ذخیرہ کر سکتے ہیں چنانچہ قدیم عربوں کی زندگی میں پانی مل جانے پر اونٹوں کو زیادہ سے زیادہ پانی پلانے کے لۓ یہ نفسیاتی طریقہ استعمال کیا جاتا تھا کہ دو اونٹوں کو ہہلو بہ پہلو جوہڑ پر کھڑا کرتے تھے تاکہ ایک دوسرے کو پیتا دیکھ کر زیادہ سے زیادہ پانی پی لیں اس پہلی مرتبہ سیرابی کو "نہل" کہتے تھے جس سے منہل بمعنی پنگھٹ کا لفظ نکلا بعد ازاں جب آخری دو اونٹ پینا شروع کرتے تو اولین دو اونٹوں میں سے ایک کو لا کر ان کے درمیان کھڑا کر دیتے تھے جب وہ اپنے دونوں طرف اونٹوں کو پانی پیتا دیھکتا تو پھر سے پانی پینا شروع کر دیتا اس دوسری مرتبہ سیراب کو "عل" کہتے تھے چنانچہ "نہل و عل" ایک بار پیا اور دوبارہ پیا ایک محاورے کی صورت اختیار کر گیا جس سے مراد جی بھر لینا، خوب سیراب ہو جانا ہےـ اونٹ کے ان ہی غیرمعمولی اوصاف اور سخت طبیعت کے باعث اسے "سفينةالبر" یعنی صحرا کا جہاڑ کا لقب ملا ـ
 


اونٹ کے بعد جانوروں میں گھوڑا اہم ہے عربی ادب میں اس کا ذکر بھی عام ہے عربی النسل گھوڑا اگرچہ دنیا بھر میں معروف ہے لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ عرب کا جانور نہیں بلکہ بہت قدیم زمانے میں باہر سے یہاں پہنچا ہاں یہاں آ کر چونکہ اس کی نسل ملاوٹ سے پاک رہی اس لۓ اس کی نسل زیادہ اصیل رہی چونکہ گھوڑا پیاس جلد محسوس کرتا ہے اور اچھے معیار کا چارہ چاہتا ہے اس لۓ عربوں کے ہاں گھوڑا پالنا ہمیشہ ایک مہنگا شوق رہا ہے بدو لوگ خود صرف اونٹ کے دودھ سے پیاس بجھا لیتے اور پانی بچا کر گھوڑے کو پلا دیتے تھے اور بعض اوقات تو گھوڑے کی پیاس کو خود اپنے بچوں کی پیاس پر ترجیح دیتے تھےـ گھوڑے کی پرورش کے لۓ اس قدر تکلف اٹھانے کا باعث گھوڑے کی جنگی اہمیت رہی ہے قبیلوں کی باہمی مارڈھاڑ میں جارحیت اور مدافعت دونوں کے لۓ گھوڑا اونٹ سے زیادہ کارآمد ہوتا تھا گھوڑے کی دوسری اہمیت تجارتی نوعیت کی تھی چنانچہ عربی گھوڑے ہندوستان، مصر اور مغربی ممالک کو برآمد کیے جاتے رہے اب یہ دونوں حیثیتیں ختم ہو جانے کے باعث عربی گھوڑا معدوم ہوتا جا رہا ہے ایک طرف جدید اسلحے نے جنگی اہمیت ختم کردی ہے اور دوسری جانب پیٹرول کی دریافت نے عربوں کی معیشت کا نقشہ ہی سرے سے بدل کر رکھ دیا ہے چنانچہ صحرا نشینوں میں گھوڑا پالنے کا رواج قریب قریب ختم ہو گیا اور صرف شاہی خاندان کے امیرزادوں کے ایک ذاتی شوق کی حیثیت سے باقی رہ گیا ہےـ
 


عرب کی نباتاتی زندگی کا خیال کیا جاۓ تو عموما" صرف کھجور کا تصور ذہن میں آتا ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنی ہمہ گیر افادیت کی بناء پر کھجور ایک طرف اور عرب کا باقی سارا نباتاتی ذخیرہ دوسری طرف رکھا جا سکتا ہے تپتے ہوۓ ریگزاروں کے تناظر میں ایک خوشنما تضاد پیش کرتے ہوۓ نخلستان سچ مچ جنت ارضی کے نمونے ہیں اہل حضر کے لۓ کھجور وہی اہمیت رکھتی ہے جو بدوؤں میں اونٹ کو حاصل ہے کھجور غذائیت سے بھرپور ایک بنا بنایا کھاجا ہے جو دودھ کے ہمراہ ہزاروں سال تک عربوں کی مستقل روزمرہ کی غذا میں شامل رہا ہے اس کو سکھا لینے کے بعد تادیر استعمال کے قابل رکھا جا سکتا ہے "نبیذ" اسی سے تیار کی جاتی ہے اس کی گٹھلیاں کوٹ کر اونٹوں کو کھلائی جاتیں اس کے تنے مکانات کی تعمیر میں کام آتے اگرچہ اس کی لکڑی عمدہ نہیں ہوتی تاہم چھوٹا موٹا فرنیچر بنانے میں کام آتی اس کی چھال اور شاخیں ایندھن مہیا کرنے کے علاوہ چھت ڈالنے، ٹوکریاں اور چٹائیاں بننے اور دیگر مقاصد کے لۓ استعمال ہوتی رہی ہیں چونکہ کھجور کے درخت کو شدید گرمی راس ہے کھاری پانی بھی اس کی نشونما کے لۓ کافی ہے اس لۓ یہ عرب کے صحرائی ماحول میں اونٹ کی طرح ایک کم خرچ بالانشین قسم کا عطیہ خداوندی ہے اہل حضر کے باغوں میں کھجوروں کی قطاروں کو وہی حیثیت حاصل رہی ہے جو اہل بدو کے ہاں اونٹوں کے گلوں کو حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ عربی میں کھجور کے لۓ بھی مترادفات کی وہی کثرت ہے جیسی اونٹ کے لۓ ہے کھجور کو مختلف مرحلوں پر مختلف نام دیۓ گۓ ہیں مثلا" کچی کھجور "لون" ادھ کچی "بسر" پکی ہوئی تازہ کھجور "رطب" اور خشک ہو جانے پر "تمر" کہلاتی ہے کھجور کی ان گنت اقسام ہیں صرف مدینہ منورہ میں ایک سو چالیس کے قریب اقسام شمار کی جاتی ہیں کھجور آج بھی آب زم زم کے ساتھ تحفہ حرم شمار کی ہوتی ہے کھجور کی یہ اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن عرب کی نباتاتی زندگی صرف کھجور تک محدود نہیںـ
درختوں میں جھاؤ کی دو اقسام "غضا" اور "آثل" بہت معروف ہیں آثل کو بستیوں اور کھیتوں کے گرد قطاروں میں لگا کر باڑ بنائی جاتی ہے جو ریتلی آندھیوں کو روکتی ہے غضا کی لکڑی بڑی سخت ہوتی ہے اور اس کا کوئلہ دیر تک جلتا رہتا ہے چنانچہ "حمرالغضا" غضا کے انگارے کی ترکیب عربی میں کثرت سے ملتی ہے "طلح" یعنی ببول یا کیکر کا درخت بھی عام ہے جس سے گوند نکلتا ہے گوند ببول کا اگریزی نام Gum Arabic عرب سے ہی منسوب ہے علاوہ ازیں "سدر" بیری بھی عام ہے ـ بہت سے مقامات پر کھجور کی بجاۓ ناریل نے لے لی ہے کھجور کے پہلو در پہلو ناریل کے درخت پاۓ جاتے ہیں بعض مقامات پر کھجور کی جگہ "مقل" یا "دوم" بھی ملتا ہے جو بڑی حد تک کھجور کے مشابہ ہے لیکن اس میں کھجور کی طرح ایک تنا نہیں ہوتا بلکہ متعدد شاخوں والا تنا ہوتا ہےـ ان کے علاوہ بھی قدیم عربی ادب میں سینکڑوں درختوں اور پودوں کے نام ملتے ہیں کچھ عرصے سے نیم کے درخت نے عرب میں خوب جڑ پکڑی ہے اور اسی نام سے معروف ہیں جو پاکستان کی جانب سے میدان عرفات میں حاجیوں کی سہولت کے لۓ قطار اندر قطار لگاۓ گۓ ہیں ـ

سرزمین عرب پھولوں اور دیگر پھلوں سے بھی خالی نہیں ہے جن میں گلاب، چنبیلی، نازبو، صحرائی پودینہ، اور بعض دوسرے خوشبودار پھول "صعتر"، "خزامی' " وغیرہ قابل ذکر ہیں ـ پھلوں میں انگور، انجیر، بادام، سنگترے، لیموں، خوبانی، آڑو، انار، سیب، تربوز، خربوزے، آلوچے، عناب، املی، بہی اور کہیں کہیں آم اور کیلے بھی پاۓ جاتے ہیں پھل عموما" کھجوروں کے باغ میں کھجوروں کی قطاروں کے درمیان بچی ہوئی زمین میں بوۓ جاتے ہیں ـ ترکاریوں میں خاص خاص مولی، کدو، کھیرا پیاز وغیرہ ہیں ـ اناج میں گیہوں، جو، مکئی، باجرہ، اور چاول نمایاں ہیںـ مختصر پیمانے پر کپاس بھی کہیں کہیں کاشت کی جاتی ہے ـ چارے کے لۓ برسیم کی کاشت بھی عام ہے حضرموت کے قریب "مہرۃ" کے علاقے میں قدیم زمانے سے لے کر اب تک لوبان بدستور ملتا ہے لوبان کے ساتھ ساتھ "مر" اور "بلسان" بام بھی قابل ذکر ہیںـ رنگ دینے والے پودوں میں "ورس" مہندی اور نیل قابل ذکر ہیں ـ اس کے علاوہ تمباکو بھی کاشت کیا جاتا ہے صحرائی نباتات میں سنا، گھیگوار، "سمح" جس کے دانوں سے دلیہ تیار کیا جاتا ہے اور "کماۃ" زیادہ معروف ہیں کماۃ بدوؤں کی خوراک میں شامل ہے اور اس کے کئی نام ہیںـ "اراک" پیلو بھی قابل ذکر ہے جس کی ٹہنیاں مسواک کا کام دیتی ہیں اور اونٹوں کے لۓ عمدہ چارہ ہے اسی طرح ناگ پھنی "صبیر" یا "صبار" (Cactus ) اونٹوں کا اچھا چارہ ہے حالانکہ یہ تلخ اور خار دار ہوتا ہےـ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں