منگل، 14 جنوری، 2014

ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج:

علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک خطبے میں ایک عرب مصنف قاضی ساعد المتوفی ٤٦٢ھ کی کتاب طبقات الامم کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ "ہندو نبوت اور رسالت نہیں مانتے اور حیوانات کو ذبح کرنا اور ان کو تکلیف دینا برا سمجھتے ہیں" آگے چل کر ایک متکلم مطہر کی کتاب البداء والتاریخ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں ہندوستان میں نو ٩ سو فرقے ہیں لیکن ان میں سے صرف ننانوے ٩٩ کا حال معلوم ہے جو پینتالیس ٤٥ مذہبوں کو مانتے ہیں اور یہ چار اصولوں پر متفق ہیں ان کی اصل موٹی تقسیم دو ہیں سمنی بودھ اور برہمنی- سمنی یا تو خدا کے قائل نہیں یا ایسے خدا کے جو بےاختیار ہے برہمنی مذہب والوں میں سے ایک توحید سزا اور جزا کا قائل ہے مگر رسالت کا نہیں، دوسرا تناسخ کے اصول کے طور پر جزا و سزا کو مانتا ہے لیکن نہ خدا کا قائل ہے اور نہ رسالت کا، مسلمان ان کے نزدیک ناپاک ہیں وہ ان کو اور جس چیز کو مسلمان چھو لیں اس کو نہیں چھوتے اورگائے ان کے نزدیک ماں کی طرح محترم ہے اس کی جان لینے کی سزا ان کے یہاں قتل ہے اور غیر عورت سے ہم بستری کرنا بے بیوی والوں کیلئے ان کے ہاں جائز ہے اور اگر بیوی والا یہ کام کرے تو اس کی سزا قتل ہے اور جب ان میں سے کوئی مسلمان ہو کر وآپس ان کے پاس چلا جاتا ہے تو اس کو مارتے نہیں بلکہ اس کے بدن کے تمام بال مونڈ کر اس کو پراشچت کرتے ہیں جو اب بھی ہندوستان میں مروج ہے- برہمنوں کے نزدیک شراب حرام ہے اور ذبیحہ بھی، یہ گائے کو پوجتے ہیں اور گنگا سے پار جانا حرام سمجھتے ہیں اور کسی کو اپنے دھرم میں لینا ان کے یہاں جائز نہیں- بتوں کی پوجا کے بارے میں مصنف کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہندو بتوں کو برہمہ کا اوتار سمجھتے ہیں ہندوؤں کی مذھبی کتاب رگ وید میں درج ہے "جو برہمہ کو جان یا محسوس کر لیتا ہے وہ برہمہ میں سما جاتا ہے" برہمن خود کو برہمہ کی اولاد کہتے ہیں ہندوؤں میں برہمن اعلیٰ اور مقدس سمجھے جاتے ہیں پورے ہندو سماج میں برہمن کی اجارہ داری ہے-
رگ وید میں سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم کئے جانے کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے ہندو سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم کئے جانے کا مقصد بھی برہمن کی حیثیت کو قائم و دائم رکھنا ہے- برہمن سب سے اعلیٰ ذات ہے حکمرانی ان کا پیدائشی حق ہے اور یہ ہندو مذہب کے پیشوا قرار دئیے گئے ہیں جبکہ چھتری یا کھتری برہمن اور برہمن کے اقتدار کے محافظ قرار دئیے گئے ہیں لہٰذا کھتری کا اقتدار میں بڑا عمل دخل رہا ہے اس طرح ویش کاروبار، ہنرمندی اور خدمت کرنے والوں کا گروہ یا ذات ہے آخر میں سب سے بڑے گروہ میں تمام اچھوتوں کا شمار ہوتا ہے جو سب سے ادنیٰ درجے کے پیشے اختیار کرتے ہیں جو ہریجن یا شودر کہلاتے ہیں- سارے ہندوستان کے ہندو اس تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں اور مختلف گروہوں کی سماجی برتری اور کمتری کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے ان بڑے گروہوں کے قانونی پیشے روایت کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں اور ان میں اونچ نیچ کی بالترتیب اور درجہ با درجہ تقسیم پائی جاتی ہے اس طرح ہندو مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں نسلی تعصب کی تعلیم دی گئی ہے-
سماج مذہب کا پرتو ہوتا ہے لہٰذا ہندوستانی سماج مذہبی اونچ نیچ، ذات پات اور چھوت چھات میں مبتلا رہا ہے چھوت چھات کا یہ عالم ہے کہ ہندو دعوتوں میں دو آدمی ایک ساتھ کھانا نہیں کھاتے ہندو آپس میں چھوت چھات کی وجہ سے گھن کرتے ہیں ایک طرف تو ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی جانور کو بھی تکلیف نہ پہنچاؤ اس عقیدے کے تحت گائے کی پوجا کرتے ہیں اس کے فضلے کو متبرک مانتے ہیں گئو ماتا کا حد درجہ احترام کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہب انسانوں سے ان کا رویہ عقل اور منطق سے اختلاف نہیں تو اور کیا ہے- ہندو گوشت نہیں کھاتے ہیں یہاں تک کہ انڈے کھانا بھی حرام سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے سبزی خور کہے جاتے ہیں تو دوسری طرف انسانوں کی عزت نفس اس درجہ پامال کرتے ہیں کہ بچے کی پیدائش پر ہی اس کا سماجی مرتبہ اس کے گروہی لحاظ سے مقرر کر دیتے ہیں اپنے ہم مذہب کے علاوہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو پانچویں درجے پر رکھتے ہیں جس کے تحت انھیں سخت نجس و ناپاک سمجھتے ہیں یہ ہی کچھ انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں جبکہ مسلمان گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ہمیشہ سماجی خلیج حائل رہی-

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم: تمام احباب اور ایڈمن سے درخواست اور عرض کی جاتی ہے کہ یہ کتاب مجھے pdf میں چاہیے۔ اشد ضرورت ہے۔ شکریہ
    email: searchdoor@yahoo.com

    جواب دیںحذف کریں