اتوار، 22 دسمبر، 2013

آغاز کلام:

 
یوں تو تمام انسان ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں یعنی "بنی آدم" لیکن ارشاد خداوندی کے مطابق "ہم نے تمہیں قبیلوں میں تقسیم کردیا" بنی آدم قبیلے سے مزید قبیلے وجود میں آۓ اور ہر قبیلے نے فطرت انسانی کے مطابق اپنے قبیلے کو دوسرے قبیلوں سے اعلی' اور افضل ثابت کرنے کی کوشش کی اس اعلی' اور افضل ہونے کے چکر میں اتنے آگے بڑھ گۓ کہ اپنے قبیلے میں نہ پائی جانے والی خوبیوں کا دعوی' بھی کیا جس کی وجہ سے ان قبیلوں کے درمیان اختلافات نے جنم لیا اور یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے آج کی دنیا کی شکل اختیار کر گۓ جہاں زبان، مذہب اور علاقے کے تعصب نے انڈے بچے دینے شروع کر دیۓ شیطان کی چلوں نے اس عمل میں عمل انگیز کا کام کیا اور یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اچھائی کے مقابلے میں برائی زیادہ جلدی پھیلتی ہے اور ایسا ہی ہوا ـ برخلاف حکم خداوندی کے "تاکہ تم پہچانے جاؤ" اپنے قبیلے کے مقابلے میں دوسرے قبیلے کو نیچا ثابت کرنے میں ایسے مشغول ہوۓ کہ اپنی اچھائیاں بھی کھو بیٹھے ـ جب کہ منشاۓ الہی' تو یہ تھا کہ قبیلوں میں تقسیم سے تم پہچانے جاؤ اور اپنے عمل سے اعلی' اور افضل قرار پاؤ ـ اس معیار کے مطابق دنیا میں انسان اپنے ابتدائی دور میں ہی دو قبیلوں میں تقسیم ہو گۓ تھے ـ ایک قبیلہ ہابیل اور دوسرا قبیلہ قابیل ـ یہ قبیلے علاقے اور نسب کی وجہ سے وجود میں نہیں آۓ بلکہ یہ انسانوں کی نظریاتی تقسیم تھی اگر ہم آج بھی اس دنیا کا مطالعہ کریں تو بنیادی طور پر دنیا ان ہی دو نظریات کے مطابق تقسیم نظر آتی ہے ـ
گروہ ہابیل تو شروع سے ہی اللہ تعالی' کے بتاۓ ہوۓ راستے پر تھا جب کہ گروہ قابیل کی اصلاح کے لۓ اللہ تعالی' نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ـ گروہ ہابیل سے تعلق رکھنے والوں نے اللہ کے بھیجے ہوۓ پیغمبروں کو خوش آمدید کہا جب کہ قابیل کے گروہ نے مزاحمت کی لیکن پیغمبروں کی تعلیمات کی سچائی کے آگے قابیل کے گروہ کے گمراہ لوگ بھی سنورنے کے لۓ تیار ہو گۓ ـ ہر پیغمبر کی موجودگی میں ہابیل کا گروہ بڑھتا رہا اور اس میں اضافہ ہوا جب کہ پیغمبر کی رخصت کے کے فورا" بعد قابیل کے گروہ نے اپنے مکروہ عمل شروع کر دیۓ اور ظلم و استبداد کے ذریعے ہابیل گروہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملنے پر مجبور کرتے رہےـ یہ عمل ہر دور میں جاری و ساری رہا اور آخرکار دنیا گھپ اندھیرے میں ڈوب گئی اور پھر خالق کائنات کو ترس آگیا اور اس نے اپنے پیارے اور آخری رسول حضرت محمد مصطفے' صلی' اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانوں کی بھلائی کے لۓ مبعوث فرمایا آپ کو اللہ تعالی' نے قبیلہ قریش کی شاخ بنو ہاشم میں پیدا فرمایا اور اس طرح رہتی دنیا تک قبیلہ بنوہاشم صاحب عزت و توقیر ٹھہرا ـ
بنوہاشم کو عزت عطا کرنے میں جہاں اللہ تعالی' کی عنایت کا معاملہ ہے وہاں ان کے قول و عمل کی وہ خوبیاں بھی ہیں جو قوموں اور قبیلوں کو امتیاز عطا کرتی ہیں اگر ہم حضور صلی' اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قصی بن کلاب اور قصی بن کلاب سے لے کر حضور صلی' اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جو نام آتے ہیں ان میں وہ خوبیاں پائی جاتی تھیں جو عین منشاۓ الہی تھیں یعنی اللہ کے دیۓ ہوۓ اختیار کو استعمال کرکے انسان اعلی' اور برتر مقام حاصل کرسکتا ہے جب کہ اس اختیار کو استعمال کرکے ذلیل و بدتر مقام بھی پا سکتا ہے جیسا کہ ابو جہل اور ابولہب قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے ان میں نسب کی وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جن پر فخر کر سکتے تھے لیکن وہ اپنے نسب کے غرور میں مبتلا ہوگۓ اور اپنے ناموں کو جہل کا استعارہ بنا گۓ ـ

(نوٹ: قصی بن کلاب کو بہت سے حوالوں میں قصی' بن کلاب بھی لکھا گیا ـ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں