منگل، 31 دسمبر، 2013

عرب قوم اور عربی زبان کی حیثیت:

جدید علمی تحقیقات کے نتیجے میں دنیا بھر کی قوموں اور زبان کو مختلف زمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہےعرب قوم "اقوام سامیہ" اور عربی زبان کو "السنہ سامیہ" میں شمار کیا جاتا ہے- سامی اور سامیہ کے علاوہ "سمیاطیقی" کی اصطلاح بھی اردو میں رائج رہی ہے مگر اب متروک ہے یہ انگریزی اصطلاح "Semitic" ہی کی اردو صورت ہے- زبانوں کے حوالے سے اس اصطلاح کا موجد جرمن عالم "A. Ludwig Schlozer" ١٨٠٩ - ١٧٣٥ ہے یہ دونوں اصطلاحیں بنیادی طور عہدنامہ عتیق بائبل کے اس نسب نامہ سے ماخوذ ہیں جس میں حضرت نوح کے تین بیٹے سام، حام  اور یافث بتائے گئے ہیں اور طوفان نوح کے بعد تمام اقوام کا مورث اعلی ان ہی تینوں کو قرار دیا گیا ہے اقوام سامیہ سام کی نسل تصور کی جاتی ہے اور ان اقوام کی  زبانیں السنہ سامیہ کہلاتی ہیں سامی زمرے میں اشوری، بابلی، آرامی، عبری یا عبرانی، حبشی اور عرب قومیں اور ان کی زبانیں قابل ذکر ہیں یہ مسئلہ اب تک طے نہیں ہو سکا کہ سامیوں کا اصل وطن جہاں سے وہ مختلف علاقوں میں پھیلے کہاں تھا مختلف نظریات کے مطابق آرمینیا، بابل، زیریں فرات، افریقہ اور جزیرہ نمائے عرب کو بنوسام کا حقیقی وطن قیاس کیا گیا ہے ان میں سے بعض نظریات کو اب بہت کمزور تصور کیا جاتا ہے قطعی ثبوت کسی بھی نظریے کے حق مہیا نہیں ہو سکا- تاہم بہت سے عالی مرتبت محققین کی رائے میں عرب کو سامیوں کا اصلی وطن سمجھنے کے حق میں  نسبتا زیادہ وزنی دلائل ملتے ہیں دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں کی جڑ کون سی زبان ہے یہاں بھی قطعی طور پر کچھ بتانا مشکل ہے-
طول طویل علمی بحثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ السنہ سامیہ اصل یعنی اولین سامی زبان اب معدوم ہو چکی ہے یہ رائے عموماً قابل تسلیم سمجھی جاتی ہے کہ عربی اگرچه اپنے دریافت شدہ آثار کے اعتبار سے عمر میں کمتر ہے تاہم زیادہ خالص حالت میں باقی رہنے کے سبب دیگر تمام سامی زبانوں کی نسبت اصل کے قریب تر ہے مختصر یہ کہ عرب قوم سامی اقوام کی اور عربی زبان سامی زبانوں کی بہترین نمائندہ ہے ایک تو اس اعتبار سے کہ عرب کی جغرافیائی ماحول میں یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی تھی جس میں تغیرو تبدل کی رفتار سست تھی اور زبان اور نسل کا زیادہ دیر تک خالص حالت میں باقی رہنا ممکن تھا اور دوسرے اس پہلو سے کہ اسلام کی بدولت عرب اپنی روایات کو دور دور تک پھیلا سکے اور دنیا کے بڑے حصے پر ان کی مہر ثبت ہو گئی یہ سعادت کسی اور سامی زبان کے کے حصے میں نہ آ سکی دوسری سامی زبان کا چھوڑا ہوا ورثہ قلیل اور مبہم ہے جس سے ان اقوام کے بارے میں کوئی جیتا جاگتا تصور قائم کرنا دشوار ہے جبکہ سامی زبانوں میں اگر صحیح معنوں میں کسی زبان کا چلن تسلسل کے ساتھ باقی رہا تو وہ عربی ہی ہے باقی دیگر زبانیں یکسر مٹ چکی ہیں الغرض عربی زبان کے دامن میں جس قدر عظیم الشان مذہبی، علمی، ادبی اور تہذیبی ذخیرہ موجود ہے اور جتنی دور دور کی سرزمینوں میں اور جس وسیع پیمانے پر اس کا چلن آج تک باقی ہے کسی اور سامی زبان کو اس کا عشرعشیر بھی نصیب نہیں ہو سکا-
عربی زبان کثرت الفاظ سے مالامال ہے اس میں کسی موضوع کے باریک سے باریک فرق کو بیان کرنے کے لئے بعض اوقات سو کے قریب الفاظ مل جاتے ہیں جبکہ کسی دوسری زبان میں صرف دو یا تین الفاظ ملتے ہیں- یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی خیال کے اظہار کیلئے جہاں دوسری زبانوں میں اکثر ایک پورے جملے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں عربی کا ایک لفظ اس خیال کو اسی صحت معنیٰ کے ساتھ ادا کر دیتا ہے عربی کو اسی خوبی کے باعث "بحر ذخار" کہا گیا ہے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں