منگل، 31 دسمبر، 2013

عرب قوم اور عربی زبان کی حیثیت:

جدید علمی تحقیقات کے نتیجے میں دنیا بھر کی قوموں اور زبان کو مختلف زمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہےعرب قوم "اقوام سامیہ" اور عربی زبان کو "السنہ سامیہ" میں شمار کیا جاتا ہے- سامی اور سامیہ کے علاوہ "سمیاطیقی" کی اصطلاح بھی اردو میں رائج رہی ہے مگر اب متروک ہے یہ انگریزی اصطلاح "Semitic" ہی کی اردو صورت ہے- زبانوں کے حوالے سے اس اصطلاح کا موجد جرمن عالم "A. Ludwig Schlozer" ١٨٠٩ - ١٧٣٥ ہے یہ دونوں اصطلاحیں بنیادی طور عہدنامہ عتیق بائبل کے اس نسب نامہ سے ماخوذ ہیں جس میں حضرت نوح کے تین بیٹے سام، حام  اور یافث بتائے گئے ہیں اور طوفان نوح کے بعد تمام اقوام کا مورث اعلی ان ہی تینوں کو قرار دیا گیا ہے اقوام سامیہ سام کی نسل تصور کی جاتی ہے اور ان اقوام کی  زبانیں السنہ سامیہ کہلاتی ہیں سامی زمرے میں اشوری، بابلی، آرامی، عبری یا عبرانی، حبشی اور عرب قومیں اور ان کی زبانیں قابل ذکر ہیں یہ مسئلہ اب تک طے نہیں ہو سکا کہ سامیوں کا اصل وطن جہاں سے وہ مختلف علاقوں میں پھیلے کہاں تھا مختلف نظریات کے مطابق آرمینیا، بابل، زیریں فرات، افریقہ اور جزیرہ نمائے عرب کو بنوسام کا حقیقی وطن قیاس کیا گیا ہے ان میں سے بعض نظریات کو اب بہت کمزور تصور کیا جاتا ہے قطعی ثبوت کسی بھی نظریے کے حق مہیا نہیں ہو سکا- تاہم بہت سے عالی مرتبت محققین کی رائے میں عرب کو سامیوں کا اصلی وطن سمجھنے کے حق میں  نسبتا زیادہ وزنی دلائل ملتے ہیں دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں کی جڑ کون سی زبان ہے یہاں بھی قطعی طور پر کچھ بتانا مشکل ہے-
طول طویل علمی بحثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ السنہ سامیہ اصل یعنی اولین سامی زبان اب معدوم ہو چکی ہے یہ رائے عموماً قابل تسلیم سمجھی جاتی ہے کہ عربی اگرچه اپنے دریافت شدہ آثار کے اعتبار سے عمر میں کمتر ہے تاہم زیادہ خالص حالت میں باقی رہنے کے سبب دیگر تمام سامی زبانوں کی نسبت اصل کے قریب تر ہے مختصر یہ کہ عرب قوم سامی اقوام کی اور عربی زبان سامی زبانوں کی بہترین نمائندہ ہے ایک تو اس اعتبار سے کہ عرب کی جغرافیائی ماحول میں یک رنگی کی کیفیت پائی جاتی تھی جس میں تغیرو تبدل کی رفتار سست تھی اور زبان اور نسل کا زیادہ دیر تک خالص حالت میں باقی رہنا ممکن تھا اور دوسرے اس پہلو سے کہ اسلام کی بدولت عرب اپنی روایات کو دور دور تک پھیلا سکے اور دنیا کے بڑے حصے پر ان کی مہر ثبت ہو گئی یہ سعادت کسی اور سامی زبان کے کے حصے میں نہ آ سکی دوسری سامی زبان کا چھوڑا ہوا ورثہ قلیل اور مبہم ہے جس سے ان اقوام کے بارے میں کوئی جیتا جاگتا تصور قائم کرنا دشوار ہے جبکہ سامی زبانوں میں اگر صحیح معنوں میں کسی زبان کا چلن تسلسل کے ساتھ باقی رہا تو وہ عربی ہی ہے باقی دیگر زبانیں یکسر مٹ چکی ہیں الغرض عربی زبان کے دامن میں جس قدر عظیم الشان مذہبی، علمی، ادبی اور تہذیبی ذخیرہ موجود ہے اور جتنی دور دور کی سرزمینوں میں اور جس وسیع پیمانے پر اس کا چلن آج تک باقی ہے کسی اور سامی زبان کو اس کا عشرعشیر بھی نصیب نہیں ہو سکا-
عربی زبان کثرت الفاظ سے مالامال ہے اس میں کسی موضوع کے باریک سے باریک فرق کو بیان کرنے کے لئے بعض اوقات سو کے قریب الفاظ مل جاتے ہیں جبکہ کسی دوسری زبان میں صرف دو یا تین الفاظ ملتے ہیں- یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی خیال کے اظہار کیلئے جہاں دوسری زبانوں میں اکثر ایک پورے جملے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں عربی کا ایک لفظ اس خیال کو اسی صحت معنیٰ کے ساتھ ادا کر دیتا ہے عربی کو اسی خوبی کے باعث "بحر ذخار" کہا گیا ہے-

ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

عرب میں نباتاتی اور حیواناتی زندگی:

بعض محققین جن میں اطالوی اور جرمن محققین قابل ذکر ہیں، کا خیال ہے کہ قدیم تاریخی ادوار میں عرب میں پانی اور سبزے کی قلت نہ تھی بلکہ برفانی ادوار کے بعد رفتہ رفتہ یہاں کی زمین سے نمی اڑتی گئی اور خشک صحرا پھیلتے گئے بعض دوسرے محققین مثلا" چیکوسلواکی محقق نے اس نظریے کو رد بھی کیا ہے اس کی راۓ کے مطابق جزیرہ نما کی آب و ہوا میں کوئی معتدبہ تبدیلی نہیں آئی ہاں انتظامی بے اعتنائی کے باعث صحرا کی وسعت میں اضافہ ضرور ہوا ہے دونوں گرہوں کے دلائل پرزور اور قابل غور ہیں البتہ ۱۹۲۳ ء میں جرمن محقق Bernard Moritz کی نباتاتی اور حیواناتی نوعیت کی تحقیق نے اول الذکر نظریے کو تقویت پہنچائی اس کے تحقیقی نتائج کے مطابق عرب کی نباتاتی اور حیواناتی زندگی دور بہ دور انحطاط کا شکار ہوئی جس کا سبب خشکی میں اضافہ اور قابل کاشت زمینوں تک صحرا کا پھیلتے چلے جانا ہے عرب کی نباتاتی اور حیواناتی زندگی کا جدید علمی سطح پر مطالعہ ہنوز تشنہء تکمیل ہے قدیم عربی ادب میں پودوں اور جانوروں کی بہت طویل فہرست موجود ہے جس کے تفصیلی جائزے کے لۓ الگ تحقیقی مطالعہ درکار ہے بہت سے پودوں اور حیوانوں کے ساتھ مخصوص ادبی روایات و تلازمات بھی وابستہ ہیں عرب کے نباتات اور حیوانات کی بہت سی انواع و اقسام اب معدوم ہو چکی ہیں مثلا" حیوانوں میں شتر مرغ "نعام" کا ذکر قدیم ادب میں عام ہے اسے سبک روی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۱۹۳۰ ء تک یہ خاصی تعداد میں موجود تھے لیکن اس کے پروں کے حصول کے لۓ بڑے پیمانے پر اس کا شکار کیا جانے لگا حتی' کہ ۱۹۴۴ ء کے لگ بھگ اس کی نسل ختم ہو گئی ـ
نیل گائیں "بقرالوحش" یا "مہا" جو قدیم قصائد کی ایک مستقل روایت ہیں شکار کے نتیجے میں شمالی صحرا میں ناپید ہو گئیں ہیں الربع الخالی کے بعض حصوں میں البتہ کہیں کہیں ان کی نسل باقی رہ گئی تھی ۱۹۶۱ ء میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لۓ عالمی سطح پر ایک فنڈ مختص کیا گيا جس کے تحت عرب سے آخری تیس نیل گائیوں میں سے کچھ جوڑے ایری زونا کے Phoenix Zoo بجھوا دیۓ گۓ جہاں ان کی افزائش کی مہم چلائی گئی چنانچہ ۱۹۷۹ ء میں سلطان قابوس کے حکم سے عمان میں اس کے لۓ "مشروع المہا العربیہ" (The Arabia Oryx Project ) کا منصوبہ بنایا گیا جو نیل گاۓ کے علاوہ بعض اور معدوم ہوتے ہوۓ حیوانات کا بھی تحفظ کر رہا ہے مثال کے طور پر عربی تیندوا ـ اسی طرح ۱۹۸۶ء میں سعودی عرب میں "الهئية الوطية لحماية الحياة الفطرية" (NCWCD National Commission For Wild Life Conservation And Development) کا قیام عمل میں لایا گیا جو مسلسل اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہے ـ
مختلف نسل کے ہرن جو غول در غول موجود تھے رائفل کی آمد کے بعد تیزی کے ساتھ گھٹتے گئے ببر شیر "اسد" اب معدوم ہے البتہ چیتے "نمر" اور تیندوے "فہد" کسی حد تک موجود ہیں پہاڑی علاقوں میں جنگلی بلاؤ بھی پایا جاتا ہے پہاڑی بکرے "وعل" چرخ یا لگڑ بگا "ضبع" بھیڑیا "ذئب" لومڑی "ثعلب" بندر "قرد" اور گيڈر "ابن آوی'" ہنوز موجود ہیں "ظربان" بلی کی جسامت کا ایک گوشت خور جانور جس کا رنگ سیاہی مائل خاکستری ہوتا ہے "ویر" سبزہ کھانے والا بلی کے برابر تھوتھنی دار جانور جس کا گوشت لذیذ اور پوستین قیمتی ہوتی ہےـ خرگوش "ارنب" گوہ "ضب" اور جنگلی چوہوں میں "یربوع" اور "جراذ" بھی بدستور موجود ہیں پرندوں میں عقاب، باز، کوے، چڑیاں، الو، گدھ، فاختہ، کبوتر، چکور، بٹیر، بلبل، ابابیل، بھٹ تیتر، "قطاۃ" اور ہدہد جس کا ذکر قدیم عربی ادب میں عام تھا قابل ذکر ہیں بہت سے مہاجر پرندوں کی آمدورفت بھی جاری رہتی ہےـ حشرات الارض میں مختلف قسم کے سانپ، بچھو، کنکھجورے، مکڑیاں، چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں اور ٹڈیاں اہم ہیںـ ٹڈیاں صحرانشینوں کے لۓ پسندیدہ غذا کا درجہ بھی رکھتی ہیںـ
 


پالتو جانوروں اونٹ، گھوڑا، بکریاں. خچر، گدھا، بلی، کتا، خصوصا" برق رفتار شکاری کتے "السلوقی" اور گاۓ قابل ذکر ہیںـ ان جانوروں میں اونٹ کو عرب معاشرے میں ہزاروں سال سے مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے جو صرف موجودہ دور میں مشینی وسائل کے مقابلے میں آکر ختم ہوئی ہے مگر آج بھی اندرونی صحرا کا سفر اونٹ کے بغیر ممکن نہیں تاہم بدوی معیشت میں انقلاب کے باعث اب اونٹ کے مقابلے میں بھیڑ بکریاں زیادہ منافع بخش ہو گئی ہیں چنانچہ ان کی تعداد می اضافہ اور اونٹوں کی تعداد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے ورنہ ماضی قدیم ہی نہیں ماضی قریب تک بھی بدوؤں کی زندگی میں اونٹ کی اہمیت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا تھاـ وہ اس پر سواری کرتے، خیمے لادتے، دودھ پیتے، گوشت کھاتے، اونٹ کی کھال اور اون سے خیمے اور لباس بناتے اور مختلف کام نکالتے چلے آۓ ہیں اس کا فضلہ ایندھن کا کام دیتا رہا وہ لباس اور دیگر ضروریات خریدنے کے لۓ اونٹ فروخت کرکے رقم حاصل کرتے بلکہ قدیم تر زمانے میں آپس کے لین دین میں خود اونٹ "سکہ رائج الوقت" کا کام دیتا تھاـ شدید پیاس اور ہانی کی نایابی کے وقت بدو اونٹ ذبح کرکے اس کی اوجھڑی سے پانی کا ذخیرہ نکال لیتا تھا اس سبب سے اونٹ کو بدو کا ہمزاد قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اونٹ کے لۓ عربی میں سینکڑوں نام ہیں اور قدیم شعری شہپارے اس کے ذکر سے بھرے پڑے ہیںـ ایک مورخ و محقق Karl Brockelmann نے قدیم عربوں کی زندگی میں اونٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا ہے کہ اونٹ عربوں کی فنی حس کو اس طرح بیدار کرتا تھا جس طرح ویدوں کے زمانے میں ہندوستان کے شعری تخیل کو گاۓ نے برانگخيتہ کیاـ اونٹ کی مختلف نسلیں ہیں جن میں بہترین وہ مانی جاتی ہیں جو زیادہ عرصے تک پانی کے بغیر گزارہ کر سکیں اور اچھی رفتار پر روزانہ طویل مسافتیں طے کر سکیںـ اونٹ بعض اوقات مکمل ایک مہینہ پانی کے بغیر گزار سکتے ہیں اور پانی میسر آجانے پر تیس گیلن تک پانی بیک وقت پی کر آئندہ کے لۓ ذخیرہ کر سکتے ہیں چنانچہ قدیم عربوں کی زندگی میں پانی مل جانے پر اونٹوں کو زیادہ سے زیادہ پانی پلانے کے لۓ یہ نفسیاتی طریقہ استعمال کیا جاتا تھا کہ دو اونٹوں کو ہہلو بہ پہلو جوہڑ پر کھڑا کرتے تھے تاکہ ایک دوسرے کو پیتا دیکھ کر زیادہ سے زیادہ پانی پی لیں اس پہلی مرتبہ سیرابی کو "نہل" کہتے تھے جس سے منہل بمعنی پنگھٹ کا لفظ نکلا بعد ازاں جب آخری دو اونٹ پینا شروع کرتے تو اولین دو اونٹوں میں سے ایک کو لا کر ان کے درمیان کھڑا کر دیتے تھے جب وہ اپنے دونوں طرف اونٹوں کو پانی پیتا دیھکتا تو پھر سے پانی پینا شروع کر دیتا اس دوسری مرتبہ سیراب کو "عل" کہتے تھے چنانچہ "نہل و عل" ایک بار پیا اور دوبارہ پیا ایک محاورے کی صورت اختیار کر گیا جس سے مراد جی بھر لینا، خوب سیراب ہو جانا ہےـ اونٹ کے ان ہی غیرمعمولی اوصاف اور سخت طبیعت کے باعث اسے "سفينةالبر" یعنی صحرا کا جہاڑ کا لقب ملا ـ
 


اونٹ کے بعد جانوروں میں گھوڑا اہم ہے عربی ادب میں اس کا ذکر بھی عام ہے عربی النسل گھوڑا اگرچہ دنیا بھر میں معروف ہے لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ عرب کا جانور نہیں بلکہ بہت قدیم زمانے میں باہر سے یہاں پہنچا ہاں یہاں آ کر چونکہ اس کی نسل ملاوٹ سے پاک رہی اس لۓ اس کی نسل زیادہ اصیل رہی چونکہ گھوڑا پیاس جلد محسوس کرتا ہے اور اچھے معیار کا چارہ چاہتا ہے اس لۓ عربوں کے ہاں گھوڑا پالنا ہمیشہ ایک مہنگا شوق رہا ہے بدو لوگ خود صرف اونٹ کے دودھ سے پیاس بجھا لیتے اور پانی بچا کر گھوڑے کو پلا دیتے تھے اور بعض اوقات تو گھوڑے کی پیاس کو خود اپنے بچوں کی پیاس پر ترجیح دیتے تھےـ گھوڑے کی پرورش کے لۓ اس قدر تکلف اٹھانے کا باعث گھوڑے کی جنگی اہمیت رہی ہے قبیلوں کی باہمی مارڈھاڑ میں جارحیت اور مدافعت دونوں کے لۓ گھوڑا اونٹ سے زیادہ کارآمد ہوتا تھا گھوڑے کی دوسری اہمیت تجارتی نوعیت کی تھی چنانچہ عربی گھوڑے ہندوستان، مصر اور مغربی ممالک کو برآمد کیے جاتے رہے اب یہ دونوں حیثیتیں ختم ہو جانے کے باعث عربی گھوڑا معدوم ہوتا جا رہا ہے ایک طرف جدید اسلحے نے جنگی اہمیت ختم کردی ہے اور دوسری جانب پیٹرول کی دریافت نے عربوں کی معیشت کا نقشہ ہی سرے سے بدل کر رکھ دیا ہے چنانچہ صحرا نشینوں میں گھوڑا پالنے کا رواج قریب قریب ختم ہو گیا اور صرف شاہی خاندان کے امیرزادوں کے ایک ذاتی شوق کی حیثیت سے باقی رہ گیا ہےـ
 


عرب کی نباتاتی زندگی کا خیال کیا جاۓ تو عموما" صرف کھجور کا تصور ذہن میں آتا ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنی ہمہ گیر افادیت کی بناء پر کھجور ایک طرف اور عرب کا باقی سارا نباتاتی ذخیرہ دوسری طرف رکھا جا سکتا ہے تپتے ہوۓ ریگزاروں کے تناظر میں ایک خوشنما تضاد پیش کرتے ہوۓ نخلستان سچ مچ جنت ارضی کے نمونے ہیں اہل حضر کے لۓ کھجور وہی اہمیت رکھتی ہے جو بدوؤں میں اونٹ کو حاصل ہے کھجور غذائیت سے بھرپور ایک بنا بنایا کھاجا ہے جو دودھ کے ہمراہ ہزاروں سال تک عربوں کی مستقل روزمرہ کی غذا میں شامل رہا ہے اس کو سکھا لینے کے بعد تادیر استعمال کے قابل رکھا جا سکتا ہے "نبیذ" اسی سے تیار کی جاتی ہے اس کی گٹھلیاں کوٹ کر اونٹوں کو کھلائی جاتیں اس کے تنے مکانات کی تعمیر میں کام آتے اگرچہ اس کی لکڑی عمدہ نہیں ہوتی تاہم چھوٹا موٹا فرنیچر بنانے میں کام آتی اس کی چھال اور شاخیں ایندھن مہیا کرنے کے علاوہ چھت ڈالنے، ٹوکریاں اور چٹائیاں بننے اور دیگر مقاصد کے لۓ استعمال ہوتی رہی ہیں چونکہ کھجور کے درخت کو شدید گرمی راس ہے کھاری پانی بھی اس کی نشونما کے لۓ کافی ہے اس لۓ یہ عرب کے صحرائی ماحول میں اونٹ کی طرح ایک کم خرچ بالانشین قسم کا عطیہ خداوندی ہے اہل حضر کے باغوں میں کھجوروں کی قطاروں کو وہی حیثیت حاصل رہی ہے جو اہل بدو کے ہاں اونٹوں کے گلوں کو حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ عربی میں کھجور کے لۓ بھی مترادفات کی وہی کثرت ہے جیسی اونٹ کے لۓ ہے کھجور کو مختلف مرحلوں پر مختلف نام دیۓ گۓ ہیں مثلا" کچی کھجور "لون" ادھ کچی "بسر" پکی ہوئی تازہ کھجور "رطب" اور خشک ہو جانے پر "تمر" کہلاتی ہے کھجور کی ان گنت اقسام ہیں صرف مدینہ منورہ میں ایک سو چالیس کے قریب اقسام شمار کی جاتی ہیں کھجور آج بھی آب زم زم کے ساتھ تحفہ حرم شمار کی ہوتی ہے کھجور کی یہ اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن عرب کی نباتاتی زندگی صرف کھجور تک محدود نہیںـ
درختوں میں جھاؤ کی دو اقسام "غضا" اور "آثل" بہت معروف ہیں آثل کو بستیوں اور کھیتوں کے گرد قطاروں میں لگا کر باڑ بنائی جاتی ہے جو ریتلی آندھیوں کو روکتی ہے غضا کی لکڑی بڑی سخت ہوتی ہے اور اس کا کوئلہ دیر تک جلتا رہتا ہے چنانچہ "حمرالغضا" غضا کے انگارے کی ترکیب عربی میں کثرت سے ملتی ہے "طلح" یعنی ببول یا کیکر کا درخت بھی عام ہے جس سے گوند نکلتا ہے گوند ببول کا اگریزی نام Gum Arabic عرب سے ہی منسوب ہے علاوہ ازیں "سدر" بیری بھی عام ہے ـ بہت سے مقامات پر کھجور کی بجاۓ ناریل نے لے لی ہے کھجور کے پہلو در پہلو ناریل کے درخت پاۓ جاتے ہیں بعض مقامات پر کھجور کی جگہ "مقل" یا "دوم" بھی ملتا ہے جو بڑی حد تک کھجور کے مشابہ ہے لیکن اس میں کھجور کی طرح ایک تنا نہیں ہوتا بلکہ متعدد شاخوں والا تنا ہوتا ہےـ ان کے علاوہ بھی قدیم عربی ادب میں سینکڑوں درختوں اور پودوں کے نام ملتے ہیں کچھ عرصے سے نیم کے درخت نے عرب میں خوب جڑ پکڑی ہے اور اسی نام سے معروف ہیں جو پاکستان کی جانب سے میدان عرفات میں حاجیوں کی سہولت کے لۓ قطار اندر قطار لگاۓ گۓ ہیں ـ

سرزمین عرب پھولوں اور دیگر پھلوں سے بھی خالی نہیں ہے جن میں گلاب، چنبیلی، نازبو، صحرائی پودینہ، اور بعض دوسرے خوشبودار پھول "صعتر"، "خزامی' " وغیرہ قابل ذکر ہیں ـ پھلوں میں انگور، انجیر، بادام، سنگترے، لیموں، خوبانی، آڑو، انار، سیب، تربوز، خربوزے، آلوچے، عناب، املی، بہی اور کہیں کہیں آم اور کیلے بھی پاۓ جاتے ہیں پھل عموما" کھجوروں کے باغ میں کھجوروں کی قطاروں کے درمیان بچی ہوئی زمین میں بوۓ جاتے ہیں ـ ترکاریوں میں خاص خاص مولی، کدو، کھیرا پیاز وغیرہ ہیں ـ اناج میں گیہوں، جو، مکئی، باجرہ، اور چاول نمایاں ہیںـ مختصر پیمانے پر کپاس بھی کہیں کہیں کاشت کی جاتی ہے ـ چارے کے لۓ برسیم کی کاشت بھی عام ہے حضرموت کے قریب "مہرۃ" کے علاقے میں قدیم زمانے سے لے کر اب تک لوبان بدستور ملتا ہے لوبان کے ساتھ ساتھ "مر" اور "بلسان" بام بھی قابل ذکر ہیںـ رنگ دینے والے پودوں میں "ورس" مہندی اور نیل قابل ذکر ہیں ـ اس کے علاوہ تمباکو بھی کاشت کیا جاتا ہے صحرائی نباتات میں سنا، گھیگوار، "سمح" جس کے دانوں سے دلیہ تیار کیا جاتا ہے اور "کماۃ" زیادہ معروف ہیں کماۃ بدوؤں کی خوراک میں شامل ہے اور اس کے کئی نام ہیںـ "اراک" پیلو بھی قابل ذکر ہے جس کی ٹہنیاں مسواک کا کام دیتی ہیں اور اونٹوں کے لۓ عمدہ چارہ ہے اسی طرح ناگ پھنی "صبیر" یا "صبار" (Cactus ) اونٹوں کا اچھا چارہ ہے حالانکہ یہ تلخ اور خار دار ہوتا ہےـ

جمعہ، 27 دسمبر، 2013

جزیرہ نما عرب کا محل وقوع:




دنیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جزیرہ نماۓ عرب جو دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے براعظم ایشیا کے جنوب میں واقع ہے اس کا انتہائی طول بحر احمر کے ساحل پر تقریبا" چودہ سو میل اور انتہائی عرض یمن سے عمان تک بارہ سو پچاس میل ہے اور کل رقبہ دس لاکھ مربع میل کے لگ بھگ ہے تاہم ایک بڑا حصہ بے آب و گیاہ ریگزاروں پر مشتمل ہے اس رقبے کے مقابلے میں آبادی کم ہے جزیرہ نماۓ عرب کے مشرق میں خلیج فارس اور خلیج عمان ہے اور جنوب میں بحرہند، جسے بحرعرب بھی کہتے ہیں اور خلیج عدن اور مغرب میں بحراحمر ہے اس طرح اس سرزمین کے تین اطراف میں پانی ہے چوتھی جانب یعنی شمال میں عراق، شام اور اردن ہیں اس سمت صحرا دور دور تک پھیلا ہوا ہے جو اسے ہمسایہ ممالک سے جدا کرتا ہے اس اعتبار سے قدیم عرب اپنی سرزمین کو "جزیرۃالعرب" کہنے میں حق بجانب تھے کیونکہ یہ جزیرہ نما اصل میں ایک جزیرہ ہی ہے اور باقی دنیا سے بڑی حد تک اس کا پیوند جدا چلا آیا ہے یہی وجہ ہے کہ عرب کا تاریخی ارتقاء ایشیا کے عام تاریخی عوامل کے تابع نہیں رہا اور اسی سبب عرب نسلی اور لسانی اعتبار سے زیادہ خالص رہ سکے ہیں ـ ساتھ ہی ساتھ جزیرہ نماۓ عرب وسییع تر تناظر میں ایک تضاد بھی پیش کرتا ہے یعنی ہرچند ایشیا میں اس کا محل وقوع علیحدگی اور انقطاع کی صورت لیے ہوۓ ہے تاہم بین البراعظمی اعتبار سے یہ سرزمین ایشیا، افریقہ اور یورپ کے درمیان ایک نقطہ ماسکہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے ـ عرب کی ان دو متضاد حیثیتوں کی وجہ سے ایک طرف انقطاعی پہلو رہا اور یہاں کے باشندے بڑی حد تک آس پاس کی دنیا سے الگ تھلگ زندگی بسر کرتے رہے تو دوسری طرف بہت قدیم زمانے سے بین الاقوامی تجارت میں عربوں کو ایک اہم رابطے کی حیثیت حاصل رہی ہےـ
 


مجموعی طور پر عرب ایک سطح مرتفع ہے جو مغرب سے مشرق کی طرف بتدریج ایک ڈھلوان ہے البتہ عمان میں "الجبل الاخضر" کا علاقہ اس ڈھلوان میں ایک کوہان کی حیثیت رکھتا ہے مغرب میں بحراحمر کے کنارے نشیبی علاقہ ہے جو "تہامہ" نشیبی سرزمین کہلاتا ہےـ جزیرہ نما کے وسط میں "نجد" بلند سرزمین ہے اور دونوں کے درمیان "حجاز" آڑ یا روک حائل ہے جنوب مغربی کونے پر یمن ہے یمن بمعنی "دایاں" اور شام بمعنی "بایاں" قابل غور الفاظ ہیں دائیں اور بائیں کا یہ تعین عالبا" مکہ کی نسبت سے ہے جو یمن سے شام جانے والے راستے پر تقربیا" وسط میں واقع ہے اس سے قدیم دور میں مکہ کی اہمیت اور مرکزی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے دائیں اور بائیں کے اس تعین میں رخ مشرق کی جانب ہوگا جو مطلع آفتاب ہونے کے باعث ہےـ یمن ایک قدیم تہذیب کا امین ہے اس سے متصل عمان ہے جو جنوب مشرقی کونے تک جا پہنچتا ہے مشرق میں خلیج فارس کے کنارے کنارے قطر، دبئی، ابوظہبی اور دیگر متحدہ امارات نیز بحرین اور کویت کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہیں ـ سرزمین عرب کا ایک قابل ذکر حصہ "حرات" کہلاتا ہے سیاہ بھربھرے پتھروں والی سرزمین گویا حرارت سے تپتی ہوئی زمین ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں عرب میں آتش فشاں پہاڑ پھٹتے رہے ہیں جن کے خاموش دہانے آج بھی موجود ہیں آتش فشاں کا آخری واقعہ جو علم میں آتا ہے جولائی ۱۲۵۲ ء میں پیش آیاـ حرات ریتلی چٹانوں پر پھیلے ہوۓ شکن در شکن لاوے کی تہوں سے عبارت ہیںـ 
 مدینہ منورہ کے قرب جوار سے لے کر شام تک حرات کی کثرت ہے اور خود مدینہ بھی دو حرات کے درمیان واقع ہے حرات سفر کے اعتبار سے دشوار گزار ہوتے ہیں اور جانوروں کے پیروں کو زخمی کر ڈالتے ہیں تاہم ان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان میں معدنی اجزاء کی فراوانی ہوتی ہے جن کے اثر سے آس پاس کی زمین بہت زرخیز ہو جاتی ہے چنانچہ تبوک، تیماء، خیبر اور مدینے میں سرسبز نخلستان پاۓ جاتے ہیں یہ سب حرات کے علاقے ہیں بعض مقامات پر پانی کے کچھ ذخیرے اور کچھ مقامات پر پانی کے کچھ ذخیرے اور کچھ گھاس پھوس پایا جاتا ہے چنانچہ شتربان صحرانشیں یہاں اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں گھومتے پھرتے ہیں جنھیں "دارات" یا جدید لہجے میں "دیرہ" کہتے ہیںـ
 

عرب میں نہ کوئی قابل ذکر جنگل ہے اور نہ کوئی مستقل بہنے والا دریا، البتہ برساتی پانی نے جگہ جگہ اپنی گذرگاہیں بنالی ہیں ایسی ہر گذرگاہ کو اصطلاح میں "وادی" کہا جاتا ہے طوفانی بارشوں کے بعد پانی ایک تند و تیز دھارے کی شکل میں کئی کئی دن اور بعض اوقات کئی کئی ہفتہ ان میں چلتا رہتا ہے اسے "السیل" کہا جاتا ہے سیل بسا اوقات بڑا منہہ زور ہوتا ہے پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں لڑھکا لاتا ہے اور خاصا نقصان کرتا ہے مکہ میں سیل کعبہ کی عمارت تک پہنچ جاتے ہیں تاہم یہ زور شور عارضی ہوتا ہے اور سیل کی یہ گذرگاہیں یا عرب اصطلاح کے مطابق وادیاں جلد خشک ہو جاتی ہیں اور سال کے اکثر حصے میں خشک ہی پڑی رہتی ہیں تاہم ان کی تہوں میں جذب شدہ پانی ہمیشہ موجود رہتا ہے جو کنویں کھود کر حاصل کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں اس نمی کے سبب ان کے قرب و جوار میں نخلستان خوب پھلتے پھولتے ہیں یہ وادیاں انگنت ہیں اور ہاتھ کی لکیروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں مثلا" وادی 'حنیفہ'، وادی 'حمض' اور وادی سرحان وغیرہ وغیرہ ـ وادیوں کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ پانی کا محفوظ ذخیرہ رکھنے کے سبب یہ قدیم زمانے سے فطری شاہراہوں کا کام بھی دیتی چلی آرہی ہیں اور جب یہ خشک ہوتی ہیں تو مسافر ان پر سفر کرتے ہیں چنانچہ وادی 'الرمتہ' وسط عرب سے زیریں فرات تک کئی سو میل لمبی شاہراہ کا کام دیتی رہی ہے اسی طرح وادی سرحان 'حوران' سے 'الجوف' تک تقریبا" دوسو میل پر پھیلی ہوئی ہے اور شام آنے جانے کے لۓ نہایت قدیم زمانوں سے تجارتی قافلوں کی گذرگاہ چلی آرہی ہے ـ
عرب کا نام لیتے ہی شدت کی گرمی کا تصور ذہن میں آتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں، بلاشبہ عرب کے صحرا دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ہیں چنانچہ آفتاب کی تپش سے بچنے کے لۓ صحرانشین بدو سفر کے لۓ رات کا انتخاب کرتے تھے صحرا کی لو جسے "سموم" کہا جاتا ہے ایسی قاتل ہوتی ہے کہ اس کی زد میں ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا سموم جسے "بادحمیس" بھی کہتے ہیں بحراحمر اور خلیج فارس کے ساحلی علاقوں مثلا" جدہ اور مسقط وغیرہ میں پریشان کن گرمی کی کیفیت ہوتی ہے تاہم عرب کی آب و ہوا کا یہ تصور درست ہونے کے باوجود صرف جزوی ہے اور قدرے مبالغہ آمیز بھی ـ سندھ کے ریگستانوں اور عراق کے بعض علاقوں کے درجہ حرارت کا ریکارڈ عرب سے زیادہ پایا گیا ہے عرب کے تمام علاقوں کی آب و ہوا بھی یکساں نہیں مثلا" مکہ کی آب و ہوا شدید گرم ہے لیکن مدینے کا موسم نسبتا" معتدل ہے طائف گرمیوں کے لۓ ایک خنک مقام ہے جزیرہ نما عرب کے بعض حصوں کی آب و ہوا سال بھر صحت بخش اور خوشگوار رہتی ہے سردیوں میں شمالی نجد ميں کہر اور دھند عام ہوتی ہےـ صحرا کی راتیں یخ بستہ ہوتی ہیں کیونکہ ریت جتنی جلدی گرم ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے ٹھنڈی بھی ہوتی ہے شمال کی طرف سے آنے والی ہوا حد درجہ سرد ہوتی ہے بارش اگرچہ کم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہوا جب ہوتی ہے تو چند ہی روز میں طوفانی زور شور دکھاتی ہے اور وقتی طور پر سیلابی صورت اختیار کر جاتی ہے سعودی عرب کے پرفضا مقام "ابہاء" میں کبھی کبھی برف باری بھی ہو جاتی ہے اپریل ۱۹۸۱ ء میں ابہاء میں بہت برف باری ہوئی تھی جس کی تہہ بعض مقامات پر پانچ پانچ فٹ دبیز تھی ـ

اتوار، 22 دسمبر، 2013

آغاز کلام:

 
یوں تو تمام انسان ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں یعنی "بنی آدم" لیکن ارشاد خداوندی کے مطابق "ہم نے تمہیں قبیلوں میں تقسیم کردیا" بنی آدم قبیلے سے مزید قبیلے وجود میں آۓ اور ہر قبیلے نے فطرت انسانی کے مطابق اپنے قبیلے کو دوسرے قبیلوں سے اعلی' اور افضل ثابت کرنے کی کوشش کی اس اعلی' اور افضل ہونے کے چکر میں اتنے آگے بڑھ گۓ کہ اپنے قبیلے میں نہ پائی جانے والی خوبیوں کا دعوی' بھی کیا جس کی وجہ سے ان قبیلوں کے درمیان اختلافات نے جنم لیا اور یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے آج کی دنیا کی شکل اختیار کر گۓ جہاں زبان، مذہب اور علاقے کے تعصب نے انڈے بچے دینے شروع کر دیۓ شیطان کی چلوں نے اس عمل میں عمل انگیز کا کام کیا اور یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اچھائی کے مقابلے میں برائی زیادہ جلدی پھیلتی ہے اور ایسا ہی ہوا ـ برخلاف حکم خداوندی کے "تاکہ تم پہچانے جاؤ" اپنے قبیلے کے مقابلے میں دوسرے قبیلے کو نیچا ثابت کرنے میں ایسے مشغول ہوۓ کہ اپنی اچھائیاں بھی کھو بیٹھے ـ جب کہ منشاۓ الہی' تو یہ تھا کہ قبیلوں میں تقسیم سے تم پہچانے جاؤ اور اپنے عمل سے اعلی' اور افضل قرار پاؤ ـ اس معیار کے مطابق دنیا میں انسان اپنے ابتدائی دور میں ہی دو قبیلوں میں تقسیم ہو گۓ تھے ـ ایک قبیلہ ہابیل اور دوسرا قبیلہ قابیل ـ یہ قبیلے علاقے اور نسب کی وجہ سے وجود میں نہیں آۓ بلکہ یہ انسانوں کی نظریاتی تقسیم تھی اگر ہم آج بھی اس دنیا کا مطالعہ کریں تو بنیادی طور پر دنیا ان ہی دو نظریات کے مطابق تقسیم نظر آتی ہے ـ
گروہ ہابیل تو شروع سے ہی اللہ تعالی' کے بتاۓ ہوۓ راستے پر تھا جب کہ گروہ قابیل کی اصلاح کے لۓ اللہ تعالی' نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ـ گروہ ہابیل سے تعلق رکھنے والوں نے اللہ کے بھیجے ہوۓ پیغمبروں کو خوش آمدید کہا جب کہ قابیل کے گروہ نے مزاحمت کی لیکن پیغمبروں کی تعلیمات کی سچائی کے آگے قابیل کے گروہ کے گمراہ لوگ بھی سنورنے کے لۓ تیار ہو گۓ ـ ہر پیغمبر کی موجودگی میں ہابیل کا گروہ بڑھتا رہا اور اس میں اضافہ ہوا جب کہ پیغمبر کی رخصت کے کے فورا" بعد قابیل کے گروہ نے اپنے مکروہ عمل شروع کر دیۓ اور ظلم و استبداد کے ذریعے ہابیل گروہ کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملنے پر مجبور کرتے رہےـ یہ عمل ہر دور میں جاری و ساری رہا اور آخرکار دنیا گھپ اندھیرے میں ڈوب گئی اور پھر خالق کائنات کو ترس آگیا اور اس نے اپنے پیارے اور آخری رسول حضرت محمد مصطفے' صلی' اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانوں کی بھلائی کے لۓ مبعوث فرمایا آپ کو اللہ تعالی' نے قبیلہ قریش کی شاخ بنو ہاشم میں پیدا فرمایا اور اس طرح رہتی دنیا تک قبیلہ بنوہاشم صاحب عزت و توقیر ٹھہرا ـ
بنوہاشم کو عزت عطا کرنے میں جہاں اللہ تعالی' کی عنایت کا معاملہ ہے وہاں ان کے قول و عمل کی وہ خوبیاں بھی ہیں جو قوموں اور قبیلوں کو امتیاز عطا کرتی ہیں اگر ہم حضور صلی' اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قصی بن کلاب اور قصی بن کلاب سے لے کر حضور صلی' اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جو نام آتے ہیں ان میں وہ خوبیاں پائی جاتی تھیں جو عین منشاۓ الہی تھیں یعنی اللہ کے دیۓ ہوۓ اختیار کو استعمال کرکے انسان اعلی' اور برتر مقام حاصل کرسکتا ہے جب کہ اس اختیار کو استعمال کرکے ذلیل و بدتر مقام بھی پا سکتا ہے جیسا کہ ابو جہل اور ابولہب قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے ان میں نسب کی وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جن پر فخر کر سکتے تھے لیکن وہ اپنے نسب کے غرور میں مبتلا ہوگۓ اور اپنے ناموں کو جہل کا استعارہ بنا گۓ ـ

(نوٹ: قصی بن کلاب کو بہت سے حوالوں میں قصی' بن کلاب بھی لکھا گیا ـ)

ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

تمہید:


تاریخ اگلی نسلوں کی امانت ہوتی ہے اور یہ امانت دیانت داری سے عہد بہ عہد نسل در نسل منتقل ہوتی رہنا چاہئے- کسی بھی ملک اور قوم کی تاریخ مرتب کرنے والے کو ذاتی لگاؤ متاثر کرتا ہے یہ عمل اس وقت بہت نا گوار گذرتا ہے جب تاریخ نویس کی  راۓ زنی کی وجہ سے تاریخ مسخ ہو رہی ہو- کچھ یہ ہی حال سرزمین عرب اور عرب قوم کے ساتھ بھی کیا گیا عرب کے متعلق معلومات اور روایات کی تو افراط ہے مگر عرب کی تاریخ میں اصل مسئلہ مبالغہ آرائی اور غلط تاثرات کا ہے جس نے حقیقت کے خدوخال چھپا دیتے ہیں ناچیز نے اصل خدوخال کو منطقی انداز سے واضح کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے-
تالیف و تصنیف ایک مشکل فن ہے جس کے لۓ بہت زیادہ علم و مہارت درکار ہوتی ہے مجھنے تو جاننے کے شوق نے پڑھنے کی طرف مائل کیا- کتاب اور معاشرے کے تضاد نے اضطراب میں مبتلا رکھا جس نے دماغ کے کواڑوں کی کنڈی ہلاۓ رکھی اور مضامین لکھنے پر اکسایا- تاریخ عرب قبل از اسلام کے مطالعہ کے دوران عرب کے خدوخال مختلف انداز سے سامنے آۓ خاص کر انکے طرز معاشرت، تجارت اور فنون سے متعلق حقایق عام تاثر سے مختلف ہیں- عربوں کے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ ان کے طرز معاشرت میں فہم کا گذر نہ ہونے کے برابر تھا جو من میں سمایا کر گذرے یعنی عرب فہم سے عاری تھے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو دین فطرت ہے اور عقل و فہم کے قریب تر ہے ایک ایسی قوم پر نازل کیا جاتا جو اس دین کو سمجھنے کا ادراک ہی نہیں رکھتی تھی- یہ تاثر بھی عام کہ ابتدائی دورمیں اسلام اور قریش باہم متصادم رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا سرچشمہ قریش سے ہی جاری ہوا تھا-اسی طرح عرب کی سرزمین، آب و ہوا، پیداوار اور نباتات و حیوانات کے متعلق بھی صحیح معلومات حاصل کرنے کے لتے کافی محنت درکار ہوتی ہے- سرزمین عرب اور عرب قوم کے متعلق حقایق جاننے کے سلسلے میں اپنی بساط کے مطابق زیر مطالعہ کا حاصل مطالعہ پیش خدمت ہے- میں قارئین اور خصوصا اہل علم سے ملتمس ہوں کہ جہاں کہیں بھی غلطی یا میری کم سمجھی آپ پر آشکار ہو تو میری اصلاح کے لۓ مطلع فرمائیں-
میں اس تمہید کو طول دینا نہیں چاہتا تاہم اللھ کا شکر اور اسکی حمدوثنا بجا لانا چاہتا ہوں کہ اس  نے مجھے اس کتاب کے اختتام پر ایک ایسے نتیجے پر پہنچایا جو کہ ہر انسان اور خصوصا ہر مسلمان کے لۓ باعث فلاح و کامرانی ہے اور وہ ہے وابستگی دامن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم-
                                             ایک ہی صف میں کھڑنےہوگنےمحمودوایاز
                                             نہ  کوئی  بندہ  رہا  اور نہ  کوئی   بندہ  نواز

انتساب:




الله کے حبیب اور اپنے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کے نام ،
کہ آپ کی تعلیم نے بندوں کو اللہ سے ملایا الہی کا جلوہ انسانوں دکھایا اور آپ ہی کی تعلیم نے نسب، حسب، اور کسب کے فرق کو مٹایا، بدوں کو عبدیت کے درجہ پر پہنچایا -

                                   عطا کیا مجھ کو درد الفت کہاں تھی یہ پر خطا کی قسمت
                                   میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے


                                                                                                                   خاکسار، خیراندیش عالم
                                                                                                                               محمد یامین

تعارف کتاب: "رود قریش"

                                         
                        مختصر تاریخی اور روایتی جائزہ عرب اور قوم قریش،                
                          "قوم قریش کا عرب سے برصغیر تک کا احوال"

                                                                      

# نوجوانوں کے لئے فکر کے دریچے:
- جزیرہ نمائے عرب کی دنیا میں اہمیت،
- سرزمین عرب اور عرب قوم کے بارے میں غلط فہمیوں کا جواب،
- عرب قوم کے دیگر اقوام سے الگ رهنے کے اثرات،
- عرب و ہند کے تعلقات کے اثرات،
- قوموں کے اختلاط سے اسلامی تہذیب میں ہمہ رنگی،
- عربوں کی آمد سے ہندوستان کی صنعت و حرفت میں تبدیلیاں،
- معاشرتی اونچ نیچ کی گمراہ کن خامخیالی،
ایسے ہی بہت سے عنوانات کے تحت تاریخی، روایتی اور منطقی انداز سے اصل حقائق پیش کرنے کی کوشش.
                    

جمعہ، 20 دسمبر، 2013

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:




  •  معاشرتی اور نسبی امتیاز اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کے معنے یہ ہر گز نہیں کہ صرف نسب اور دنیا کے اثر و رسوخ کو طرۂ امتیاز بنا کر کسی کو ادنی' و اعلی' قرار دیا جاۓ آقا کی وجہ سے قبیلہ قریش عالم میں محترم ٹھہرا اور قبیلہ قریش میں جو آپ پر ایمان لاۓ وہ فضیلت والے ٹھہرے اور جو آپ پر ایمان نہ لاۓ وہ نسبی تعلق رکھتے ہوۓ بھی بے نام و نشان یا جہل کا استعارہ ہیں آقا کے جاننے، ماننے اور چاہنے والوں میں بھی وہ زیادہ فضیلت والے ہیں جو آقا کی تعلیمات کے پاسدار ہیں اور آپ سے وفا کے رشتے کو زیادہ بہتر انداز سے نبھا رہے ہیں.
    یااللہ ہمیں ایک اور نیک کر دے، آمین یارب العالمین.