پیر، 6 جنوری، 2014

عربوں کا قدیم انساب:


عرب بائدہ سے مراد قدیم قبائل ہیں جو یکسر نابود ہو گئے ہیں اور انکے محض  قصے کہانیاں باقی رہ گئے ہیں- ان میں قوم عاد، ثمود، طسم اور جدیس سرفہرست ہیں بائدہ کے مقابلے میں عرب باقیہ آتے ہیں یعنی وہ قبائل جو بچ رہے اور انکی نسل منقطع نہ ہوئی جیسا جدول سے ظاہر ہے ان کے دو گروہ عاربہ اور مستعربہ ہیں عرب عاربہ یعنی اہل یمن مراد ہیں جن کو ان کے جد اعلی قحطان کی نسبت سے قحطانی بھی کہا جاتا ہے- عرب مستعربہ سے شمالی عرب مراد ہیں یہ عدنان کی اولاد ہیں اس لئے عدنانی کہلاتے ہیں-

عرب بائدہ:
قوم عاد:
قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی جس کا ذکر بطور عبرت بار بار قران میں آیا ہے ان لوگوں کا مسکن "احقاف" کی سرزمین تھی جس کے نام سے چھیالیسویں سورت موسوم ہے قرآنی آیات کے مطالعے سے ان لوگوں کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طور پر قوی ہیکل تھے جس کسی پر گرفت کرتے بڑی سخت کرتے اپنی اس طاقت کا ان میں زعم بےجا پیدا ہو گیا تھا اور وہ کہتے تھے "بھلا ہم سے بڑھ کر طاقت والا کون ہے" بڑے خوشحال اور متمدن تھے فن تعمیر میں انھیں بڑی دسترس حاصل تھی چنانچہ نہ صرف بڑی شان و شوکت کے محل اور قلعے تعمیر کرتے تھے بلکہ جابجا پہاڑی دروں میں یا بلند ٹیلوں پر محض تفریح طبع یا خوش مذاقی کے نقطہ نظر سے یادگار عمارتیں بنانا بھی ان کا مشغلہ تھا- حضرت ہود علیہ السلام کی تمام تر تبلیغ و تذکیر کے باوجود انھوں نے صرف ہدایت پر کان نہ دھرے اور اپنے آبائی معبدوں کو ترک کرنا گوارا نہ کیا مزیدبراں تکذیب اور اکڑ کا رویہ اختیار کیا نتجتاً ان پر ذلیل کر ڈالنے والا عذاب نازل ہوا جس نے ان کو مکمل طور پر برباد کر کے رکھ دیا اور سوائے حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے صحابہ کے کوئی جیتا نہ بچا- یہ عذاب ایک حد سے گزر جانے والی تندوتیز ہوا کی صورت میں آیا جسے قرآن پاک میں "ریح صرصر" تند ہوا "الریح العقیم" بانجھ یعنی بےبرکت ہوا اور "ریح فیہا عذاب الیم" ہوا کہ جس میں دردناک عذاب تھا سے تعبیر کیا گیا ہے یہ سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہی اور انھیں کھجور کے ڈھئے ہوئے تنوں کی طرح پچھاڑ کر رکھ دیا یہ جس چیز کی طرف رخ کرتی اسے گلی سڑی ھڈی کی طرح بےجان کر کے رکھ دیتی تھی الغرض قوم عاد کے گھروں کے سوا کچھ باقی نہ بچا-

قوم ثمود:
قوم ثمود کا مسکن "وادی القریٰ " کا علاقہ بتایا جاتا ہے جو جزیرہ نمائے عرب کے شمالی مغربی حصے میں ہے ان کا دارالحکومت مقام حجر تھا جو حجاز سے شام کو جانے والی قدیم شاہراہ پر واقع ہے اور اب "مدائن صالح" کے نام سے پہچانا جاتا ہے قرآن مجید میں صراحت و تفصیل کے ساتھ جہاں جہاں ثمود کا ذکر آیا ہے اس سے اس قوم کی تصویر کچھ یوں سامنے آتی ہے- قوم عاد کے بعد قوم ثمود کو عروج ملا یہ بھی بڑے خوشحال تھے چشموں، باغوں، لدے پھدے نخلستانوں اور کھیتوں کے مالک تھے فن تعمیر میں انھیں بھی قوم عاد کی طرح عروج حاصل تھا چنانچہ میدانوں میں محلات کھڑے کرتے تھے اور پہاڑوں پر بڑی ہنرمندی اور چابکدستی سے گھر تراشتے تھے ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا آپ نے بہت تبلیغ کا کام کیا الله کی نعمتیں جو ان پر تھیں  یاد دلائیں لیکن انھیں راہ حق پر شک اور اپنے آبائی معبدوں پر اسرار رہا اور انھوں نے بھی دوسری بدنصیب اقوام کی طرح پیغمبر کو جھٹلایا انھوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے معجزہ طلب کیا چنانچہ الله تعلیٰ کی طرف سے ایک اونٹنی معجزے کے طور پر ظاہر کی گئی جو ان کیلئے ایک آزمائش ثابت ہوئی حضرت صالح علیہ السلام نے ہدایت فرمائی کہ الله کی اس اونٹنی کا نیز اس کے کھانے پینے کی باری کا خیال رکھنا اس کی باری مقرر ہے اسے چرنے چگنے دو اور کسی قسم کا ضرر نہ پہنچاؤ مبادا تم پر عذاب نازل ہو- حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت پر صرف کچھ زیردست و ناتواں لوگ ایمان لائے متکبر سرداروں نے کفر اختیار کیا پیغمبر اور ان کے اصحاب کو موجب بدشگونی قرار دیا شہر میں ٩ آدمی ازحد فسادی تھے انھوں نے ایک دوسرے کو قسمیں دلائیں کہ مل جل کر حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے متعلقین کو شب خون مار کر ہلاک کر ڈالیں اور پھر جرم سے مکر جائیں لیکن ان کی تدبیر کو الله کی تدبیر نے توڑ دیا بالآخر ان کی ساری جمیعت نیست و نابود ہوئی اور ان کے گھر ان زیادتیوں کی پاداش میں ویران ہو گئے- عذاب کی صورت یہ ہوئی کہ انھوں نے اونٹنی کی حرمت کو ملحوظ رکھنا قبول نہ کیا اور پیغمبر کی تمام تنبیہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سر کشی کی راہ اختیار کی اور قوم کے سخت بدبخت شخص کو دعوت دےدی روایات میں اس شخص کا نام قدار بن سالف بتایا گیا ہے اونٹنی ہلاک کرنے کے سبب اسے "عاقرالناقه" بھی کہا جاتا ہے سو وہ اٹھا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر انھوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ پیغمبر ہیں تو لیجئے جس عذاب سے ڈراتے دھمکاتے تھے اب ہم پر ڈلوائیے- حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا بس تین دن اپنے گھروں میں کھا کھیل لو یہ اٹل بات ہے چنانچہ تین دن بعد عذاب آیا اور انھیں اپنے کیئے پر پریشانی اٹھانا پڑی- اس عذاب نے ان سب کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے یوں جیسے کبھی ان میں رہے بسے ہی نہ تھے- قوم ثمود پر نازل ہونے والا عذاب تیز آواز والے زلزلے کی صورت میں نازل ہوا اس عذاب کو قرآن پاک میں "صیحۃ" تند آواز، "صیحۃ واحدۃ" یکبارگی تند آواز، "الطاغیۃ" حد سے گزری ہوئی آواز اور کہیں "الرجفۃ" یعنی زلزلہ کہا گیا-

عرب باقیہ:
عرب عاربہ:
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ عرب عاربہ سے مراد یمنی الاصل قبائل ہیں یمن کا مختصر ذکر بھی گذر چکا ہے جزیرہ نما کا جنوبی حصہ ایک قدیم تہذیب کا مدفن ہے- مغربی ماہرین آثار قدیمہ کی جانفشانیوں کے نتیجے میں اس سرزمین سے قدم کتبے بڑی تعداد میں برآمد ہوئے ہیں جن کا زمانہ ٨٠٠ قبل مسیح تک بتایا جاتا ہے بعد کی تحقیقات سے ١٢٠٠ ق م تک چلا گیا ان کتبوں کی زبان قدیم جنوبی عربی ہے جو اب معدوم ہو چکی ہے جو شمالی عربی یعنی موجودہ عربی سے یکسر مختلف ہے ان کتبوں کا رسم الخط عربی اصطلاح میں المسند کہلاتا ہے کتبوں کے علاوہ قدیم سکوں کی دریافت سے بھی یمن کی قدیم تاریخ پر روشنی پڑتی ہے ان تمام آثار سے بڑی منظم اور متمدن حکومتوں کا سراغ ملتا ہے جن کی زبان ثقافت اور مذھب کی تفصیلات ایک الگ مطالعے کا موضوع ہیں اور ہمارے دائرۂ بحث سے سردست خارج ہیں ہماری دلچسپی کی چیز ان علمی اور اثراتی تحقیقات سے بڑھ کر روایات، داستانیں اور انساب ہیں جو اپنی اصل میں نیم تاریخی اور نیم اساطیری حیثیت رکھتے ہیں لیکن عربوں کے اجتماعی لاشعور اور معاشرت پر ان کا گہرا اثر ہے- روایات کے مطابق قحطان اہل یمن کا جد اعلی اور ان کا پہلا بادشاہ تھا اس کے بعد اس کا بیٹا یعرب بن قحطان تینتیس ٣٣ برس تک حکمران رہا اور یہی وہ شخص تھا جس نے عرب بائدہ کی صحبت میں عربی زبان اختیار کی اور پھرشمالی عرب کے عدنانی قبائل نے اس سے اخذ کی اس کے بعد اس کے بیٹے عبد شمس سبا نے پینتیس ٣٥ برس حکومت کی یہ شخص مشہور بند "سد مارب" کا بانی سمجھا جاتا ہے اور ملک سبا کے ایک بہترین اور اعلیٰ حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے- سبا کا ذکر قرآن پاک میں ایک قبیلے یا مملکت کی حیثیت سے آیا ہے جس سے انکی قوت و شوکت، خوش حالی و فارغ البالی اور پھر ناشکری کے سبب سزایابی کا علم ہوتا ہے ان کی ملکہ کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جو واقعہ پیش آیا اس کا ذکر تورات، انجیل اور قرآن پاک میں ملتا ہے عام روایات کے مطابق ملکہ کا نام بلقیس بنت شرجیل تھا ملک سبا کے دارالحکومت مارب کے جنوب مغرب میں چند میل کے فاصلے پر کوہسار ابلق کے دو حصوں کے درمیان وادی ادینہ کے سیلاب کی روک تھام نیز آبپاشی کی غرض سے عبد شمس سبا نے ایک زبردست بند تعمیر کیا تھا جو سد مارب کے نام سے مشہور ہے یہ سد ایک تاریخی حقیقت ہے جس کے کھنڈرات آج بھی باقی ہیں- Th S Arnaud نے ان آثار کو دریافت کیا اور ١٨٤٣ میں جاں کی بازی لگا کر ساٹھ کے قریب کتبے نقل کئے اور ان آثار کا تفصیلی بیان فرینچ ایشیاٹک سوسائٹی کے جرنل میں کیا- سید سلیمان ندوی کے بقول Arnaud کی مہیا کی ہوئی تفصیل طبری اور بغوی کی تفسیر میں دی ہوئی تفصیلات سے مطابقت رکھتی ہیں سد مارب انجینئرنگ کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا- اس میں اوپر سے نیچے تک بہت سی کھڑکیاں تھیں جو حسب ضرورت کھولی اور بند کی جا سکتی تھیں مشرق و مغرب کی سمت دو بڑے بڑے دروازے تھے جن سے پانی تقسیم ہو کر زمینوں کو سیراب کرتا تھا- سد مارب کی تباہی کا باعث ایک زبردست سیلاب بتایا جاتا ہے جس کے بعد اہل یمن کی شوکت و عظمت کا سورج غروب ہو گیا اور بہت سے شمالی عرب کی جانب ہجرت کر گئے- جس سیلاب سے سد مارب کی تباہی ہوئی اس کو "سیل العرم" کہا جاتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں وارد ہوا ہے- ترجمہ: "بالیقین اہل سبا کیلۓ ان کے مسکن میں ایک نشانی تھی دو باغ دائیں اور بائیں- اپنے پروردگار کے رزق میں سے کھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ طیب و عمدہ شہر بخشنے والا رب- سو انھوں نے روگردانی کی پس ہم نے ان پر سیل العرم چھوڑ دیا" اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل یمن پر یہ سیلاب عظیم بطور سزا کے آیا جس سے ان کی خوشحالی اور فراوانی جاتی رہی- سیل العرم کو تنگی رزق اور سلب نعمت کا سبب بتایا گیا ہے نہ کہ جلا وطنی و دربدری کا، سید سلیمان ندوی کی رائے میں اس دربدری کا سبب یہ ہوا کہ یونانیوں اور رومیوں نے ہندوستان اور افریقہ کے مابین تجارت کو بری راستے سے بحری راستے یعنی بحر احمر کی طرف منتقل کر دیا تھا اور تبدیلی کے باعث یمن سے شام جانے والی وہ شاہراہ تجارت اجڑ کر رہ گئی جس پر سبا کی اقتصادیات کا دارومدار تھا- بہرحال زوال و انتشار کا سبب جو کچھ بھی رہا ہو یہ بات طے شدہ ہے کہ طلوع اسلام سے پہلے کی صدی میں یمن کا آفتاب بعض وجوہات کی بناء پر غروب ہو چکا تھا اور ان کی عظمت پارنیہ قرآن کے الفاظ کے بموجب افسانے اور داستانیں بن کر رہ گئی-
اہل یمن کی بربادی میں بچی کچی کسر کو ابرہہ نے اپنے مکروہ ارادے سے پورا کر دیا جب ابرہہ نے خانہ کعبه کو منہدم کرنے کیلۓ لشکر کشی کی اس مہم کی تفصیلات کتب تاریخ و سیرت میں مذکور ہیں مختصر یہ کہ یہ لشکر جس میں تیرہ ہاتھی بھی شامل تھے مکہ پر حملہ آور ہوا اس اثنا میں سمندر کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ نمودار ہوئے جنھوں نے دونوں پنجوں اور چونچ میں ایک ایک سنگریزہ مسور یا چنے کی دال کے دانے کے برابر تھاما ہوا تھا یہ کنکریاں جس جس کے جا لگیں وہ ہلاک ہوا لشکر یمن نے گرتے پڑتے راہ فرار اختیار کی اور جابجا راستے میں مرتے گئے ابرہہ کو ایسی بیماری ہوئی کہ اس کے اعضاء گل گل کر ریزہ ریزہ جھڑتے گئے اور خون و پیپ رسنے لگا- روایات عرب میں مذکور ہے کہ چیچک اور خسرہ کا ظہور عرب میں پہلی بار اسی سال ہوا تھا- اس سے اہل دانش نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ابرہہ کی فوج میں چیچک کی وباء پھوٹ نکلی تھی جس سے وہ تباہ و برباد ہو گئی- سید سلیمان ندوی نے اس سلسلے میں یہ قیاس ظاہر کیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ پرندوں کی پھینکی ہوئی کنکریوں میں چیچک کے وبائی جراثیم ہوں- عربوں نے اس سال کو "عام الفیل" ہاتھی کا سال کے نام سے یاد رکھا اسی سال اور بعض روایات کے مطابق اس واقعے سے ٹھیک پچاس روز بعد آنحضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی پھر تقریباً پچاس برس بعد سورہ فیل نازل ہوئی جس میں اس واقعے کا تذکرہ یوں فرمایا،
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا
کیا اس نے ان کی چال کو الجھا کر نہیں رکھ دیا
اور ان پر غول در غول پرندے بھیجے
جو انھیں کنکری کی پتھریوں سے نشانہ بنا رہے تھے
سو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر ڈالا

سورہ فیل ترجمہ: "کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا- کیا اس نے ان کی چال کو الجھا کر نہیں رکھ دیا اور ان پر غول در غول پرندے بھیجے جو انھیں کنکری کی پتھریوں سے نشانہ بنا رہے تھے- سو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر ڈالا-" یہ سورت غیر مسلم محققین کیلۓ بھی ایک تاریخی سند ہے کیونکہ اس کے نزول کا زمانہ اصل واقعے سے اتنا قریب ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو ہنوز ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے خود اس واقعے کا زمانہ پایا تھا اور اس کا مشاہدہ کیا تھا یا اپنے بڑوں سے اس کے چشم دید واقعات سنے تھے- اس واقعے سے اہل یمن کے غرور کا سورج ہمیشہ کیلۓ ڈوب گیا-

2 تبصرے: