ہفتہ، 25 جنوری، 2014

ذات اور پیشے:

ہندوستان میں لوگوں کی حیثیت پیشے کے لحاظ سے متعین کر دی جاتی تھی بلکہ یوں کہیں تو زیادہ صحیح ہوگا جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ذات کے حوالے سے پیشے اختیار کیے جاتے تھے مسلمانوں نے یہاں جو پیشے اختیار کئے ان کے لحاظ سے ان کا معاشرتی رتبہ متعین کر دیا گیا ان مسلمانوں میں نومسلم بھی شامل تھے جو وہ ہی پیشے کرتے رہے جو مسلمان ہونے سے پہلے کرتے تھے- عرب سے آنے والوں نے نئے پیشے بھی ہندوستان میں متعارف کروائے جو کہ پیشے کے نام اور نوعیت سے باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں- اسلام مساوات اور اخوت کا درس دیتا ہے چنانچہ مسلمانوں میں پیشے کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہیں ہے- زمانۂ قدیم میں عرب کا خاص پیشہ گلھ بانی اور مویشی چرانا رہا ہے اسلام کی عظیم شخصیات نے یہ پیشہ اختیار کیا- ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بکریاں چرائیں اب کیا کوئی مسلمان چرواہے کے پیشے کو برا کہہ سکتا ہے یقیناً نہیں جو اپنے آپ کو مسلمانوں میں اشرف سمجھتے ہیں ان کے آباواجداد بھی بکریاں چرایا کرتے تھے اگر مسلمان ذات پات کو مانتے تو یقیناً اشرف ذات چرواہے کہلاتی اگر پیشے کے لحاظ سے اونچ نیچ ہوتی تو مسلمانوں کے نزدیک سب سے اونچا اور مقدس پیشہ مویشی چرانا قرار پاتا جس میں بہت برکت ہے جس سے بنی آدم کو خوراک ملتی ہے اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء حاصل ہوتی ہیں- کوئی پیشہ نہ کسی کا حق ہے اور نہ کسی پر فرض، یہ تو محض ذریعہ معاش ہے یہ ہی وجہ ہے کہ امراء و اشراف جب کبھی بے منصب ہوئے تو ان کی اولادوں نے مختلف پیشے اختیار کئے اسی طرح عام پیشوں کے کرنے والوں کی اولادوں نے قاضی اور سپھ سالاروں کے منصب حاصل کئے- ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے پیشہ بدلنا بہت دشوار تھا لوگ نسل درنسل پیشوں میں جکڑے ہوئے تھے
ہندو معاشرے کے چند مروجہ پیشے یہ ہیں بڑھئی، دھوبی، کمہار، لوہار، نائی، سنار، تیلی، بھانڈ، جلاہا، بھٹیارا، دھنیا، اور کنجڑا وغیره ان تمام پیشوں کا نام ہندی یا سنسکرت زبان میں ہے جس سے باآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تمام پیشے مقامی طور پر مروج تھے اور ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کے تحت ان کی ذات کا تعین تھا چونکہ پیشے معاشرے کی ضرورت ہیں اس لئے ان پیشوں کو مسلمان بھی کیا کرتے تھے ہندوؤں نے ان مسلمانوں کو بھی معاشرے میں وہی مقام دیا جو ان پیشوں سے وابستہ اپنے ہم مذہب لوگوں کو دیا کرتے تھے اور رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بھی پیشے کے اعتبار سے حیثیتوں کا تعین ہونے لگا- کچھ پیشے اپنے نام کی مناسبت سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پیشے ہندوستان میں باہر سے آئے تھے درزی فارسی زبان کا لفظ ہے اور درزن بمعنی سینا سے بنا ہے یعنی سینے والا یعنی کپڑے یا لباس سینے والا- اس پیشے کا نام فارسی ہونا اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ یہ پیشہ ایران سے ہندوستان میں آیا تھا فارسی زبان بولنے والوں کی آمد سے پہلے لباس سینا باقاعدہ پیشہ نہ تھا اور بعد میں ہندوؤں نے لباس سینے کا کام بطور پیشہ اپنایا ہو گا-
قصاب کا پیشہ بھی ہندوستان میں نہیں تھا اس پیشے کا نام عربی ہے قصب جس کے معنی کاٹنے کے ہیں اس لفظ سے قصاب بنا عربی میں فعل سے فاعل بنانے کے طریقوں میں ایک طریقه یہ ہے کہ لفظ کے دوسرے حرف پر تشدید لگا کر الف کا اضافہ کرنے کے بعد آخری حرف لکھ دیا جاتا ہے یعنی قصاب خالصتاً عربی پیشہ ہے- جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ عرب تاجروں کی مسلمان حملہ آوروں کی آمد سے پہلے آبادیاں قائم تھیں جو اپنی آبادیوں میں گوشت کی ضرورت بکری، دنبہ اور اونٹ ذبح کرکے پوری کر لیا کرتے تھے- محمد بن قاسم کے دور حکومت میں ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے قصاب کا پیشہ باقاعدہ پیشے کی صورت اختیار کر گیا- قصاب کا پیشہ واحد پیشہ ہے جو صرف مسلمان کیا کرتے تھے ہندو مذہب میں گوشت کھانے کی ممانیت اور گائے کی پوجا کی وجہ سے ہندو یہ پیشہ اختیار نہیں کر سکتے تھے بلکہ ہندو اس پیشے کو بہت برا سمجھتے تھے اور ہندو مذہب سے دشمنی گردانتے تھے- اس پیشے کو شروع میں اہل قریش کیا کرتے تھے بعد میں اس پیشے کو نومسلموں نے بھی اختیار کیا جہاں پوری کی پوری آبادی مسلمان ہو گئی تھی جن کا تعلق کسی ایک ذات یا ایک دیہات سے ہوتا تھا جیسے پنجاب کے جٹ، میوات کے دیہاتی وغیرہ- پنجاب کی ذاتیں نامی کتاب مترجم یاسرجواد میں ١٩٣١ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے حوالے سے لکھا ہے کہ پنجاب کے جٹ خود کو قصاب بتاتے ہوئے پائے گئے اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ پیشہ کسی نسل یا قوم کیلئے مخصوص نہیں ہوتا- اس کتاب میں قصاب کے پیشے کو روایتی پیشوں سے الگ متفرق دستکار کے عنوان سے درج کیا گیا ہے- اکبری عہد میں ہندو ذات کے مقابلے میں مسلمانوں میں برادری کی اصطلاح رائج ہوئی مثلاً درزی برادری، قصاب برادری وغیرہ یعنی ہم پیشہ لوگوں کے گروہ کو برادری کہا جانے لگا جیسے آج کل وکلاء برادری، انجینئر برادری وغیرہ کہا جاتا ہے-

جمعہ، 24 جنوری، 2014

عرب مسلمانوں پر ہندو سماج کے اثرات:

مسلمانوں کا دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے اسلام کی تعلیم فہم سے ماورا نہیں ہے ہر حکم اور دلیل عقل و فہم سے ثابت ہوتی ہے اس بات کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں میں دینی طور پر تو ہندو مذھب کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن معاشرتی طور پر مسلمان ضرور متاثر ہوئے جبکہ ہندوؤں کی کثیر تعداد نے اپنے سماجی رویوں سے سے اکتاہٹ کا اظہار کیا جس کی وجہ سے بہت سی ہندو آبادی دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی اس اختلاط کی وجہ سے مسلمانوں کے سماجی رویوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں سب سے نمایاں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے بھی مختلف نسبوں سے تعلق رکھنے والوں کا ایک گروپ تشکیل دے لیا جس کو اشراف کہا جانے لگا اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ بعد میں اس تقسیم کو مزید وسعت گئی ١٩٣١ کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی مندرجہ ذیل چار ذاتیں قرار دی گئیں-
١- اشراف -------------- سید، مغل، پٹھان اور شیخ،
٢- مسلم راجپوت -------- نو مسلم اعلیٰ ذات کے ہندو،
٣- میواتی مسلمان ------- نو مسلم دیہاتی ہندو اور عرب بدو،
٤ - پاک کام کرنے والے - روز مرہ کے کام کاج کرنے والے نو مسلم مقامی اور غیر مقامی،
دراصل یہ چار گرہوں میں تقسیم ہندوؤں کی چار ذاتوں میں تقسیم کی نقل تھی یہ تقسیم پھر ایک لمبی تقسیم در تقسیم کی صورت میں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے بھی زیادہ گھناؤنی شکل اختیار کر گئی جو مسلمانوں میں نفاق کا باعث بنی- 
                                                یوں سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو 
                                                تم سبھی کچھ  ہو  بتاؤ تو  مسلمان بھی  ہو 
اشراف المسلمین میں بھی اعلیٰ اور ادنیٰ کا مسئلہ درپیش رہتا تھا جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے-
١- سید: علامہ سید سلیمان ندوی اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں "ظہور اسلام کے بعد عربوں اور مسلمانوں میں نسبی حیثیت سے سب سے بڑا درجہ سادات کا ہے" موجودہ سادات خاندانوں میں سے زیادہ کا تعلق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے حضرت زین العابدین کی نسل سے ہے حضرت زین العابدین کی والدہ شہربانو عرب نہ تھیں ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایرانی تھیں اور خاندان شاہی سے تھیں مگر مورخوں میں سے بعض نے ان کو سندھ کا بتایا ہے اگر یہ اخیر قول صحیح ہے تو اس کے ماننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے شریف و مقدس خاندان کے نسب میں ہندوستان کا بھی حصہ ہے- سلطان محمود تغلق کی وفات ١٤١٣ کے بعد تغلق دور کا خاتمہ ہو گیا افغان امراء نے زمام اختیار دولت خان کے ہاتھ میں دے دیا مگر جلد ہی لاہور کے گورنر خضر خان نے دہلی پر قبضہ کرکے ١٤١٤ میں سید خاندان کی بنیاد رکھی اس خاندان کے لوگ اپنے نام میں سید کے ساتھ شاہ بھی لگاتے ہیں- سادات کے دو سلسلۂ نسب ہیں اول سادات حسنی اور دوئم سادات حسینی- سادات حسنی حضرت امام حسن رضی الله تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں حسن مثنیٰ اور زید کی اولاد ہیں جبکہ سادات حسینی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زین العابدین کی اولاد کو کہتے ہیں یہ دونوں سلسلۂ سادات مسلمانوں کے دونوں فرقوں یعنی شیعہ اور سنی سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ہی خود کو صحیح النسب کہتے ہیں سادات حسنی و حسینی کی مزید شاخیں زیدی، عابدی، باقری، جعفری، موسوی، رضوی اور عسکری وغیرہ کہلاتی ہیں جملہ سادات ہاشمی قریشی ہیں-
٢- مغل: ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین محمد بابر باپ کی طرف سے ایشیا کے نامور فاتح امیر تیمور کی اولاد تھا اور ماں کی طرف سے اس کا شجرہ نسب چنگیز خان تاتار سے جا ملتا ہے جسے خونی فتوحات کی وجہ سے "قہر الہی" کہا جاتا ہے بابر اپنے آپ کو ہمیشہ ترک کہا کرتا تھا اور تاتاریوں یا منگولوں سے نسبت کو اپنے لئے عار خیال کرتا تھا چونکہ اس زمانے میں برصغیر کے لوگ شمال مغرب سے آنے والے ہر حملہ آور کو مغل کہتے تھے اس لئے مغل کہلائے- مغلوں نے تقریباً تین سو برس سے زائد عرصے ہندوستان پر حکومت کی لہٰذا ہندو مسلمان ان کی عزت کرنے لگے اور انھیں مسلمانو کے اشراف میں شمار کیا جانے لگا- مغل نسب کی وجہ سے اشرف نہیں کہلائے بلکہ جاہ و جلال کی وجہ سے اشرف مانے گئے جو کہ عربوں کے اصول کے خلاف ہے- مغلوں کی ذیلی شاخیں چغتائی، قزلباش، تازک، تیموری، ترکمان، ازبک اور بیگ وغیره ہیں-
٣- پٹھان: حضرت طالوت افغان قوم کے مورث اعلیٰ تھے جن کا تعلق قبطی نسل سے تھا جو فرعون کی شکست کے بعد بنی اسرائیل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غلبہ پانے کی وجہ سے تباہ ہوئی، تاریخ فرشتہ- بعض روایتوں میں انھیں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی اولاد بتایا جاتا ہے- یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام لانے کے بعد ایک خط افغان قوم کو لکھا جس میں ان کو مسلمان ہونے کی دعوت دی چند لوگ مسلمان ہو گئے جن میں ایک شخص قیس بھی تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایمان لاکر عبدالرشید کے نام سے سرفراز ہوا یہ بات اس قوم کے اکابرین کی روایت میں ملتی ہے کہ حضرت عبدالرشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت فتح مکہ کی مہم میں شریک تھی اس لئے وہ فاتحان مکہ کہلائی یہی لفظ فاتحان سے "فتحان" ہو گیا اور پشتو تلفظ کے سبب بعد میں پٹھان کہا جانے لگا یعنی ف "پ" سے اور ت "ٹھ" سے بدل گیا، سید نجم الحسن مولف اشراف عرب- افغانوں کے کچھ قبیلے مثلاً غوری، سوری اور لودھی خود کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر حضرت سارہ کی اولاد بتاتے ہیں اور قریشی کہلاتے ہیں اس لئے کہ ان کے نانا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریشی تھے ہندوستان کے حکمران غوری اور لودھی ان ہی افغان قبائل سے تعلق رکھتے تھے یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ خان کا لقب اختیار کرتے ہیں-
٤- شیخ: شیخ عرب میں آقا یا سردار کے معنے میں بولا جاتا ہے اسی حوالے سے عرب دنیا کے حکمرانوں کے نام کے ساتھ شیخ لگایا جاتا ہے- شیخ کسی کو عزت سے مخاطب کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے یعنی بزرگ اور معزز، ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آنے والے قریش شیخ کہلاتے تھے- قریش کے خاندان بنو اسد میں پیغمبر اسلام کے زمانے میں ہبار بن اسود شخص تھا جو پیغمبر اسلام کا سخت دشمن تھا آخر وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اس کی اولاد میں سے ایک شخص حکم بن عوامہ کلبی والئ سندھ کی معیت میں سندھ میں وارد ہوا اس کا پوتا عمر بن عبدالعزیز ہباری کو سندھ کی ولایت حاصل ہوئی جو منصورہ کا حکم بنا- ٢٧٠ھ میں راجہ مہروگ نے جس کا راج "کشمیر بالا" کشمیر اور "کشمیر زیریں" پنجاب کے بیچ میں تھا جو ہندوستان کے بڑے راجاؤں میں شمار ہوتا تھا، خط لکھ بھیجا کہ کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیجو جو ہم کو اسلام ہماری زبان میں سمجھا سکے عبداللہ بن عمر نے ایک عراقی مسلمان جو بہت تیز طبیعت، سمجھدار اور شاعر تھا اور ہندوستان میں رہا تھا وہ ہندوستان کی کئی زبانیں جانتا تھا، کو ہندو راجہ کے پاس بھیجا جس نے تیس ٣٠ برس میں قرآن کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اس طرح قرآن کا دنیا کی کسی زبان میں پہلا ترجمہ ہباری خاندان کے زمانے میں ہوا شیخ الاسلام زکریا ملتانی اس خاندان میں پیدا ہوئے جو ملتان میں جا کر آباد ہو گیا تھا اس خاندان کی اولاد شیخ قریشی کہلاتی ہے- ہندوستان میں شیخ صدیقی، شیخ فاروقی، شیخ عثمانی، شیخ انصاری اور شیخ ہاشمی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں-
سیدوں کا رہن سہن ایران و عراق اور شام سے متاثر تھا مغل ترک اور تاتاری تہذیب و ثقافت رکھتے تھے پٹھان افغانی روایات پر عمل پیرا تھے شیخ کسی حد تک عربی انداز زندگی اپنائے ہوئے تھے جبکہ نو مسلم راجپوت قدیم ہندوستانی رسم و رواج رکھتے ہوئے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان وجوہات کی بنا پر ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت میں ہمہ رنگی پائی جاتی ہے-

منگل، 14 جنوری، 2014

ہندوؤں کے مذہبی رسم و رواج:

علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک خطبے میں ایک عرب مصنف قاضی ساعد المتوفی ٤٦٢ھ کی کتاب طبقات الامم کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ "ہندو نبوت اور رسالت نہیں مانتے اور حیوانات کو ذبح کرنا اور ان کو تکلیف دینا برا سمجھتے ہیں" آگے چل کر ایک متکلم مطہر کی کتاب البداء والتاریخ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں ہندوستان میں نو ٩ سو فرقے ہیں لیکن ان میں سے صرف ننانوے ٩٩ کا حال معلوم ہے جو پینتالیس ٤٥ مذہبوں کو مانتے ہیں اور یہ چار اصولوں پر متفق ہیں ان کی اصل موٹی تقسیم دو ہیں سمنی بودھ اور برہمنی- سمنی یا تو خدا کے قائل نہیں یا ایسے خدا کے جو بےاختیار ہے برہمنی مذہب والوں میں سے ایک توحید سزا اور جزا کا قائل ہے مگر رسالت کا نہیں، دوسرا تناسخ کے اصول کے طور پر جزا و سزا کو مانتا ہے لیکن نہ خدا کا قائل ہے اور نہ رسالت کا، مسلمان ان کے نزدیک ناپاک ہیں وہ ان کو اور جس چیز کو مسلمان چھو لیں اس کو نہیں چھوتے اورگائے ان کے نزدیک ماں کی طرح محترم ہے اس کی جان لینے کی سزا ان کے یہاں قتل ہے اور غیر عورت سے ہم بستری کرنا بے بیوی والوں کیلئے ان کے ہاں جائز ہے اور اگر بیوی والا یہ کام کرے تو اس کی سزا قتل ہے اور جب ان میں سے کوئی مسلمان ہو کر وآپس ان کے پاس چلا جاتا ہے تو اس کو مارتے نہیں بلکہ اس کے بدن کے تمام بال مونڈ کر اس کو پراشچت کرتے ہیں جو اب بھی ہندوستان میں مروج ہے- برہمنوں کے نزدیک شراب حرام ہے اور ذبیحہ بھی، یہ گائے کو پوجتے ہیں اور گنگا سے پار جانا حرام سمجھتے ہیں اور کسی کو اپنے دھرم میں لینا ان کے یہاں جائز نہیں- بتوں کی پوجا کے بارے میں مصنف کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہندو بتوں کو برہمہ کا اوتار سمجھتے ہیں ہندوؤں کی مذھبی کتاب رگ وید میں درج ہے "جو برہمہ کو جان یا محسوس کر لیتا ہے وہ برہمہ میں سما جاتا ہے" برہمن خود کو برہمہ کی اولاد کہتے ہیں ہندوؤں میں برہمن اعلیٰ اور مقدس سمجھے جاتے ہیں پورے ہندو سماج میں برہمن کی اجارہ داری ہے-
رگ وید میں سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم کئے جانے کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے ہندو سماج کو چار ذاتوں میں تقسیم کئے جانے کا مقصد بھی برہمن کی حیثیت کو قائم و دائم رکھنا ہے- برہمن سب سے اعلیٰ ذات ہے حکمرانی ان کا پیدائشی حق ہے اور یہ ہندو مذہب کے پیشوا قرار دئیے گئے ہیں جبکہ چھتری یا کھتری برہمن اور برہمن کے اقتدار کے محافظ قرار دئیے گئے ہیں لہٰذا کھتری کا اقتدار میں بڑا عمل دخل رہا ہے اس طرح ویش کاروبار، ہنرمندی اور خدمت کرنے والوں کا گروہ یا ذات ہے آخر میں سب سے بڑے گروہ میں تمام اچھوتوں کا شمار ہوتا ہے جو سب سے ادنیٰ درجے کے پیشے اختیار کرتے ہیں جو ہریجن یا شودر کہلاتے ہیں- سارے ہندوستان کے ہندو اس تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں اور مختلف گروہوں کی سماجی برتری اور کمتری کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے ان بڑے گروہوں کے قانونی پیشے روایت کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں اور ان میں اونچ نیچ کی بالترتیب اور درجہ با درجہ تقسیم پائی جاتی ہے اس طرح ہندو مذہب دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں نسلی تعصب کی تعلیم دی گئی ہے-
سماج مذہب کا پرتو ہوتا ہے لہٰذا ہندوستانی سماج مذہبی اونچ نیچ، ذات پات اور چھوت چھات میں مبتلا رہا ہے چھوت چھات کا یہ عالم ہے کہ ہندو دعوتوں میں دو آدمی ایک ساتھ کھانا نہیں کھاتے ہندو آپس میں چھوت چھات کی وجہ سے گھن کرتے ہیں ایک طرف تو ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسی جانور کو بھی تکلیف نہ پہنچاؤ اس عقیدے کے تحت گائے کی پوجا کرتے ہیں اس کے فضلے کو متبرک مانتے ہیں گئو ماتا کا حد درجہ احترام کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہب انسانوں سے ان کا رویہ عقل اور منطق سے اختلاف نہیں تو اور کیا ہے- ہندو گوشت نہیں کھاتے ہیں یہاں تک کہ انڈے کھانا بھی حرام سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے سبزی خور کہے جاتے ہیں تو دوسری طرف انسانوں کی عزت نفس اس درجہ پامال کرتے ہیں کہ بچے کی پیدائش پر ہی اس کا سماجی مرتبہ اس کے گروہی لحاظ سے مقرر کر دیتے ہیں اپنے ہم مذہب کے علاوہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو پانچویں درجے پر رکھتے ہیں جس کے تحت انھیں سخت نجس و ناپاک سمجھتے ہیں یہ ہی کچھ انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں جبکہ مسلمان گائے کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ہمیشہ سماجی خلیج حائل رہی-

ہندوستان میں عرب مسلمان:

تجارت کی غرض سے عرب تاجر ہندوستان کے ساحلوں پر آتے جاتے رہتے تھے اس سلسلے میں ایک بڑی تعداد سری لنکا میں آباد ہو گئی تھی اس کے علاوہ مکران کے ساحلی علاقوں میں بھی عرب مسلم آبادیاں تھیں ایک روایت کے مطابق فتح سندھ سے قبل عرب مسلمان سندھ میں بستے تھے پانچ سو عرب مسلمان مکران سے سندھ میں آکر آباد ہو گئے تھے دیبل کی بندرگاہ کی وجہ سے بھی سندھ میں مسلمان آبادیاں تھیں ٹھٹہ کے قریب مکلی کے قبرستان میں صحابیٕ رسول اور تابعین کے مقبروں کی روایتیں ملتی ہیں- عربوں کا بڑا مرکز مالدیپ کا جزیرہ تھا جس کو عرب کبھی جزیرہ "المہل" اور کبھی ان چھوٹے چھوٹے سب جزیروں کو ملا کر "دیبات" کہتے تھے بعض روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب مسلمانوں کا دوسرا مرکز ہندوستان کا وہ آخری کنارہ تھا جس کو ہندوؤں کے پرانے زمانے میں "کیرالہ" کہتے تھے اور بعد کو "ملیبار" کہنے لگے یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے بہت سے عرب تاجر بس گئے تھے یہ روایت بھی ملتی ہے عربوں کے آنے سے یہاں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے بہت خوشحالی آگئی تھی جس کی وجہ سے عربوں نے اس جگہ کو "خیراللہ" کا نام دیا جو کثرت استعمال سے کیرالہ ہوگیا روایت میں قدیم مسجد کا ذکر بھی ملتا ہے جس کا نام "چیرا من مسجد" جو یہاں کے راجہ چیرا من پیرو مال کے نام پر رکھا گیا جو مشرف بااسلام ہو کر مکہ گیا تھا اس مسجد کی تعمیر مالک دینار نے کی جو تابع صحابی تھے- تجارت کے علاوہ عربوں کے ہندوستان پر حملوں کو بھی تاریخ میں عربوں کی آمد کی وجہ بتایا جاتا ہے- حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں عرب جہازوں کے بیڑے کسی معقول بندرگاہ کے حصول کیلئے ہندوستان کے ساحل پر آئے جہاں آج بھی ممبئی کا پررونق شہر آباد ہے- تھانہ "تانہ" ایک چھوٹا سا بند تھا ١٥ھ بمطابق ٦٣٦ میں اس بندرگاہ پر عربوں نے بحرین کے گورنر کے حکم پر پہلا حملہ کیا اس زمانے میں ایک دوسرے عرب مغیرہ نامی شخص نے دیبل پر جو سندھ کی بندرگاہ تھی جو ٹھٹہ یا موجودہ کراچی کے قریب تھی حملہ کیا- اس کے چند برس بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعلیٰ عنہ کے زمانے میں ایک دریائی دستہ اس بندرگاہ کی دیکھ بھال کرکے واپس چلا گیا حضرت علی رضی اللہ تعلیٰ عنہ کے عہد ٣٩ھ بمطابق ٦٦٠ سے ایک عرب سردار باقاعدہ ان اطراف کی نگرانی کرنے لگا اور آخر وہ مارا گیا ٤٤ھ بمطابق ٦٦٥ میں امیر معاویہ نے مہلب نامی سردار کو سندھ کی سرحد کا نگران بنا کر بھیجا اس بارے میں فرشتہ کہتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے جس عرب مسلمان نے معرکہ آرائیاں کیں وہ مہلب ابی صفرہ تھا اس کے بعد عربوں کی حکومت میں یہ ایک مستقل عہدہ قرار پا گیا-
٨٦ھ  بمطابق ٧٠٥ میں دمشق کے تخت شاہی پر جب ولید اموی بیٹھا اور اس کی طرف سے حجاج بن یوسف عراق، ایران، مکران اور بلوچستان یعنی ریاست کے مشرقی مقبوضات کا نائب مقرر ہوا تو اس نے ہندوستان اور اس کے جزیروں کے ساتھ اپنے تعلقات اور مضبوط کئے عرب تاجر برابر آتے جاتے رہتے تھے مگر ساتھ ساتھ ہندوستان کے اکثر ساحلوں سے بحری قذاق ان کے بحری قافلوں پر ڈاکہ زنی کرتے تھے واقعہ یہ ہے کہ سری لنکا میں کچھ عرب تاجر رہتے تھے ان کا وہاں انتقال ہو گیا سری لنکا کے راجہ نے ان کی عورتوں اور بچوں کو ایک جہاز پر سوار کرکے عراق روانہ کیا راستے میں سندھ کی بندرگاہ دیبل کے قریب ڈاکوؤں نے انھیں لوٹ لیا اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا ان عورتوں نے مصیبت کے وقت حجاج کی دہائی دی- حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجہ داہر کو خط لکھ بھیجا کہ ان عورتوں اور بچوں کو حفاظت کے ساتھ میرے پاس بھجوا دو- راجہ داہر نے معذرت کی کہ دریائی ڈاکو ہماری دسترس سے باہر ہیں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کہا جاتا ہے کہ راجہ داہر نے خواتین اور بچوں کو دینے سے انکار کر دیا تھا یہ منطقی طور غلط ہے کیونکہ عربوں کی دھاک پورے عالم پر مسلم ہو چکی تھی راجہ داہر انکار کی مجال نہیں کر سکتا تھا بلکہ معذرت ہی کر سکتا تھا جو اس نے کی چنانچہ حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان بھتیجے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں چھ ٦ ہزار فوج سندھ روانہ کی- ٩٣ھ بمطابق ٧١٢ میں محمد بن قاسم سندھ پہنچا اور تین برس کے عرصے میں "کشمیر صغیر" عرب پنجاب کو کشمیر صغیر کہتے تھے، کی سرحد اور ملتان سے مالوہ کی سرحد تک قبضہ کر لیا اس نے سندھ میں نہایت عدل اور انصاف کے ساتھ پرامن سلطنت قائم کی- محمد بن قاسم نے جب ملتان فتح کیا تو اس نے ملتان کا بت خانہ اسی حال پر چھوڑ دیا اور بت کے گلے میں گائے کی ہڈی باندھ دی اس سے محمد بن قاسم شاید یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہم گائے کھانے والے ہیں جبکہ گائے پوجنے والوں کے بتوں کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں ہے محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے کیلئے الگ جامع مسجد بنوائی محمد بن قاسم کے بعد مختلف گورنر یہاں آتے رہے- ١٠٧ھ میں جنید نامی شخص گورنر ہو کر آیا یہ بلند حوصلہ حاکم تھا اس نے سندھ سے کچھ پر حملہ کیا یہ گجرات تک پہنچا وہاں سے وآپس سندھ آگیا- ١٣٣ھ بمطابق ٧٥١ میں اموی کی جگہ عباسی آگئے شام کی جگہ عراق سلطنت کا دارالخلافہ قرار پایا اور حکومت کا مرکز دمشق سے بغداد چلا گیا اس انقلاب نے ہندوستان کو عرب کے زیادہ قریب کر ١٤٠ھ  بمطابق ٧٥٩ میں ہشام سندھ کا گورنر ہو کر آیا اس نے گندھار پر قبضہ کیا یہاں اس نے اپنی فتح کی یادگار کے طور پر ایک مسجد بنوائی یہ سندھ کے بعد ہندوستان میں دوسری مسجد تھی-
بغداد کی سلطنت معتصم باللہ عباسی تک جس کی وفات ٢٢٧ھ میں ہوئی مضبوط رہی اور اس کے بعد روز بہ روز ایسی کمزور ہوتی گئی کہ اس کا تعلق سندھ اور ہندوستان سے ٹوٹ گیا کچھ دن تک عرب امراء یہاں خود مختار بنے رہے لیکن بالآخر ہندو راجاؤں نے پھر سے قبضہ کر لیا اور بعد میں صرف دو مشہور عرب مسلمان ریاستیں قائم رہ گئیں جن میں ایک ملتان میں تھی اور دوسری سندھ کے غربی شہر منصورہ میں تھی- یمن و حجاز کے بہت سے قبیلے یہاں کے مختلف شہروں میں مستقل طور پر آباد ہو گئے پہلے سے تجارت کی غرض سے آباد عرب مسلمان جو ساحلوںپر آباد تھے ان سے ان کے تعلقات کیونکہ نسبی تھے لہٰذا ملنے جلنے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا اس طرح سے تقریبآ پورے ہندوستان میں عربوں کی آبادیاں قائم ہوتی گئیں-

قدیم عرب و ہند کے تعلقات:

عرب اور ہندوستان دونوں ملک دنیا کے دو عظیم الشان قوموں کی مذہبی تیرتھ اور عبادت گاہ ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے نزدیک پاک اور مقدس جگہیں ہیں- حدیثوں اور تفسیروں میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ ہے وہاں متعدد روایتوں میں اسی ضمن میں یہ بیان ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب آسمان سے زمیں پر بھیجے گئے تو "سراندیپ" سری لنکا میں انھوں نے پہلا قدم رکھا جس کا نشان سری لنکا کے پہاڑ پر پائے جانے کی روایات ملتی ہیں پہلے سری لنکا ہندوستان کے جنوبی حصے میں واقع تھا جبکہ موجودہ دور میں آزاد مملکت کی حیثیت رکھتا ہے-
روئے زمیں پر اولین انسان کے قدم کا نقش
عرب میں متعدد قسم کی خوشبوئیں اور مصالحے اسی جنوبی ہند سے جاتے تھے اور پھر عربوں کے ذریعے تمام دنیا میں پھیلتے تھے اس لیے یہ روایت عام ہے کہ یہ چیزیں ان تحفوں کی یادگار ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے ایک اور روایت کے مطابق امرود بھی جنت کا پھل تھا جو ہندوستان میں بکثرت پایا جاتا ہے- جب آدم علیہ السلام ہندوستان میں اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں امانت تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کا اللہ کے دین یعنی اسلام سے قدیم رشتہ ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "مجھے ہند کی جانب سے ربانی خوشبو آتی ہے" یہ روایت رجال حدیث کے لحاظ سے کم درجہ ہو سکتی ہے تاہم اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا روحانی رشتہ ازل سے قائم ہے- حضرت آدم علیہ السلام ہند سے سفر کرتے ہوئے عرب کے مرکزی شہر مکہ میں پہنچ کر اللہ کے حکم پر کعبة اللہ کی تعمیر فرماتے ہیں اس طرح ہند و عرب کے درمیان پہلا سفر دونوں ملکوں کے درمیان سفری راستہ ہونے کی ازلی و قدرتی علامت ہونے کا اظہار کرتا ہے جبکہ دوسری طرف بحری راستہ بھی قدیم زمانے سے ہند و عرب کو باہم مربوط رکھے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے ہند و عرب کا تجارتی رشتہ قائم ہے-
عرب و ہند کے درمیان تجارت بنیادی اور وسیع پیمانے پر ہوتی تھی جن میں ضرویات زندگی کی چیزیں ہند سے عرب لائی جاتی تھیں جبکہ عرب سے پرتعیش اشیاء منگوائی جاتی تھیں- کسی اجنبی ملک سے اشیاء کے ساتھ ان کے نام بھی آتے ہیں عرب میں ہندوستان سے مصالحہ جات، جڑی بوٹیاں، کپڑا اور دیگر اشیاء لائی جاتی تھیں جن کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اشیاء عرب کی اصل پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ ہندوستان سے عرب لائی جاتی تھیں مثلاً مصا لحوں میں عربی قرنفل ہندی کنک پھل 'لونگ'، عربی فلفل ہندی پیلی پیلا 'کالی مرچ'، عربی زنجبیل ہندی زرنجا بیرا 'سونٹھ ادرک'، عربی ہیل ہندی ایل 'الائچی'، عربی جائفل ہندی جائے پھل 'جائفل'- جڑی بوٹیوں میں عربی اطریفل ہندی تری پھل 'اطریفل' عربی شخیرہ ہندی شکھر 'توتیا' عربی ہیلج ہندی ہریرہ 'ہلیلہ'، عربی بلادر ہندی بھلاتکہ 'بھلادہ'، عود ہندی ساذج ہندی 'تیزپات' قرطم ہندی اور تمر ہندی ہندوستانی کھجور املی یہ نام اپنی نسبت اپنے ساتھ رکھتے ہیں- دیگر اشیاء میں عربی تنبول ہندی تامبول 'پان'، عربی کافور ہندی کپور 'کافور'، عربی فوفل ہندی کوبل 'سپاری'، عربی نیلوفر ہندی نیلوپھل 'نیلوفر'، عربی نیلج ہندی نیل 'نیل'، عربی موز ہندی موشہ 'کیلا'، عربی نارجیل ہندی ناریل 'ناریل' وغیرہ وغیرہ کے علاوہ اور بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو عرب میں لائی جاتی تھیں اور انھیں ہندی مشابہ مجرب الفاظ میں جانا جاتا ہے- یہ چیزیں تو خیر ہندوستان سے عرب جاتی تھیں مگر ان کے بدلے اہل عرب سے اہل ہند شراب اور گھوڑے لیتے تھے ہندوستان میں عربی شراب اور عربی نسل گھوڑوں کی بہت مانگ تھی- کھجوریں بھی دیبل کی بندرگاہ پر لائی جاتی تھیں وہاں سے ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچائی جاتی تھیں- اس تجارت کی وجہ سے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں باقاعدہ عرب آبادیاں قائم ہو گئیں تھیں جس سے یہاں کی صنعت و حرفت میں نمایاں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں جن میں تلوارسازی، اسلحہ سازی، جہاز رانی اور جہاز سازی نمایاں ہیں- پہلے پہل لوہا عرب میں دریافت ہوا تھا اس لیے عرب میں بہترین قسم کی تلواریں بنائی جاتی تھیں جو پہلے تو اہل ہند عرب سے منگواتے تھے مگر بعد میں عربوں سے یہ ہنر سیکھ لیا- عرب جہاز بنانے میں بھی بہت مہارت رکھتے تھے اور ہندوستان سے زیادہ تر تجارت بحری راستے ہی سے کی جاتی تھی اس لیے عرب سے روانہ ہونے والے بحری قافلے جب ہندوستان پہنچتے تھے تو جہازوں کو سمندری جوار بھاٹا اور گہرے سمندر میں بھاری پانی کے تھپیڑوں کی وجہ سے مرمت کی ضرورت ہوتی تھی جس کیلئے مقامی لوگوں کی مدد بھی لی جاتی تھی اس طرح مقامی طور پر بھی جہاز سازی کا ہنر متعارف ہوتا گیا اس طرح رفتہ رفتہ یہاں جہاز سازی کی صنعت قائم ہو گئی تھی-
تجارت کی غرض سے آنے والے تاجر و سوداگر عرب میں گوشت بطور غذا کے استعمال کرتے تھے اور ہندوستان میں گوشت نہیں کھایا جاتا تھا بلکہ مذہی طور پر ممانعت تھی اس لیے جو عرب بستیاں ساحلی علاقوں میں قائم ہو گئیں وہ ان عرب تاجروں کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرتی تھیں- ان سہولیات کی بناء پر یا حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے کی وجہ سے اہل عرب کا یہ دعویٰ حق بجانب تھا کہ ہندوستان سے ان کا تعلق صرف چند برس کا نہیں بلکہ پیدائش کے شروع سے یہ ملک ان کا "آبائی وطن" ہے- بعض روایات کے مطابق ہندوستان کا نام بھی عربوں کا تحفہ ہے عرب فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ہم پایہ اور ہم پلہ نہیں مانتے تھے- انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کے اول ایڈیشن ١٧٦٨ کی جلد دوئم کے عنوان "عرب" میں بھی عرب کی وجہ تسمیہ یہ ہی بتائی گئی ہے- عربوں کو اپنے قد کاٹھی اور وجاہت پر بھی بڑا غرور تھا برصغیر کے اصل باشندے کالے اور کوتاہ قد تھے اس لیے عرب انہیں "ہند" کہا کرتے تھے جس کے معنے غالباً کالے  یا گونگے کے لیتے تھے اس طرح پورے ملک کو ہند کہنے لگے اور آخر یہ ہی نام پوری دنیا میں مختلف صورتوں میں پھیل گیا- اس طرح خیبر سے آنے والی آریہ قوم نے اس کا نام "ہندوستھان" رکھا جو فارسی تلفظ میں ہندوستان ہو گیا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہند کا لفظ عربوں میں وہی مقام رکھتا جو فارسی میں لیلیٰ کا ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ عرب اپنی عورتوں کا نام ہند یا ہندہ رکھا کرتے تھے-

پیر، 13 جنوری، 2014

عربوں کے دوسری اقوام عالم سے روابط:

یہ درست ہے کہ تین طرف سے سمندر نے اور ایک طرف صحرائے نفوذ نے جزیرہ نمائے عرب کا پیوند زمانے سے جدا کر رکھا ہے تاہم جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ وسیع تر تناظر میں یہ جزیرہ نما ایک تضاد بھی پیش کرتا ہے اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اثرات ایک دوسرے تک منتقل کرنے میں ایک اہم واسطے کا کردار بھی ادا کرتا رہا ہے اور ظاہر ہے ایسا کرتے ہوئے یہ سرزمین خود بھی مختلف النوع ثقافتوں کے اثرات سے کچھ حد تک متاثر ہوئی ہو گی- اس بنیادی تضاد کے بہت سے پرتو قدیم عرب کی تاریخ پڑھتے ہوئے سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہرچند عربوں کی ایک بڑی اکثریت تہذیب و تمدن سے دور خانہ بدوشی اور صحرا نشینی کی زندگی بسر کر رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ عرب معاشرہ من حیث الکل کئی وسیلوں سے اس وقت کے عظیم ترین تمدنوں سے مربوط بھی تھا الغرض یہ تصور کرنا درست نہ ہوگا کہ جس سرزمین کی سرحدیں وقت کی دو عظیم طاقتوں ایران اور روم سے ملتی ہوں اور جس کے بالکل متصل قدیم ترین ادوار میں اشوریوں، بابلیوں اور کلدانیوں کی مشہور تہذیبیں پروان چڑھیں ہوں اور حمورابی کا مجموعہ قوانین تشکیل دیا گیا ہو اس کی عقلی زندگی ان بیرونی اثرات سے یکسر بے علاقہ ہوگی حقیقت بھی یہی ہے کہ عربوں کا ادب اور ان کی زندگی اجنبی اثرات سے خالی نہیں- یہ اثرات ان کے ہاں نمایاں اور باقاعدہ نہ تھے بلکہ سرسری اور بے ترتیب تھے اور نمایاں حیثیت ان کی اپنی صحرائی و قبائلی ثقافت کو حاصل تھی علاوہ ازیں بیرونی ثقافت کا اثر حضری زندگی پر زیادہ اور بدوی زندگی پر کم کم تھا- کوئی بھی قوم دوسری اقوام سے جن جن وسیلوں سے اثرات کشید کرتی ہے ان سب کی مکمل فہرست تیار کرنا قریب ناممکن ہوتا ہے کیونکہ تفصیلات بہت دقیق ہوتی ہیں تاہم ان میں بعض وسیلے بہت نمایاں ہوتے ہیں عربوں کا دیگر اقوام سے رابطہ اور اجنبی ثقافتوں سے اثر پذیری میں تجارت اہم وسیلہ رہی ہے-
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا مکہ میں قدیم بازار "شوق اللیل "
 سرزمین عرب قدیم ترین زمانوں سے ایک اہم تجارتی رہگذر رہی ہے پہلے پہل جب اہل یمن عروج پر تھے تو عنان تجارت پر قابض تھے بعد ازاں جب ان پر زوال آیا تو تجارت حجاز کے حصے میں آگئی- جزیرہ نمائے عرب کے وسط کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے اس لیے تجارتی شاہراہیں جزیرہ نما کے کناروں پر پھیلی ہوئی تھیں ایک شاہراہ حضرموت سے بحراحمر کی طرف آکر حجاز سے گذرتی ہوئی شام کو جاتی تھی دوسری حضرموت سے دوسری جانب عمان اور بحرین سے ہوتی ہوئی صور تک پہنچتی تھی ظفار سے لوبان وغیرہ بیرون عرب لے جایا جاتا اور باہر سے مختلف درآمدات یمن کو جاتی تھیں علاوہ ازیں ہندوستان کا سامان تجارت مثلاً نادر قسم کے جانور جیسے لنگور اور مور وغیرہ بھی خشکی کے راستے عرب سے ہوتا ہوا فراعنہ مصر کو جایا کرتا تھا جیسا کہ اوپر ذکر ہوا یمن کے بعد تجارت کی باگ ڈور اہل حجاز کے ہاتھ آئی، مکہ یمن سے شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ کے تقریباً وسط میں واقع تھا اور چاہ زمزم کے سبب سے ایک اہم پڑاؤ بھی تھا علاوہ ازیں حرم کعبه کو مذہبی تقدس حاصل تھا یہ تقدس دور جاہلیت میں بھی موجود تھا جس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے- قریش کے تاجر حبشہ کا سامان تجارت بھی شام کی منڈیوں میں لے جایا کرتے تھے ان کے قافلے بہت عظیم الشان ہوتے تھے اور ظاہر ہے کہ ان میں ترجمان کی غرض سے ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہونگے جو غیر زبانوں سے آگاہی رکھتے ہوں پھر یہ کہ قریش کے چنے ہوئے اعلیٰ ذہن لوگ ان قافلوں میں شامل ہوتے تھے جو بانظر غائر بیرونی ثقافتوں کا مشاہدہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے اس تجارتی شاہراہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی پہلے بارہ برس کی عمر میں جناب ابوطالب کے ہمراہ اور بعدازاں پچیس برس کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اموال تجارت کے سلسلے میں شام کا سفر اختیار کیا-
صحرانشین قبائل بھی ان تجارتی سرگرمیوں سے یکسر لاتعلق نہ تھے تجارتی قافلے لوٹ مار سے محفوظ رہنے نیز راستہ معلوم کرنے کی غرض سے ان قبائل کو اجرت پر راہنما یا محافظ بنا لیا کرتے تھے ان پڑھ اور لوٹ کھسوٹ کے عادی ہونے کے باوجود یہ لوگ اس لیے قابل اعتماد تھے کہ اپنی بات کے پکے تھے اور خلاف پیمان کوئی عمل نہ کرتے تھے ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ اگر کسی زیادہ طاقتور قبیلے کے حملے کے باعث وہ خود کو قافلے کی حفاظت سے قاصر پاتے تو اجرت لوٹا دیتے تھے- مختصر یہ کہ ان تجارتی سرگرمیوں کے باعث عربوں کا دوسری اقوام اور پھر آپس میں جو اختلاط رہتا تھا اس کے نتیجے میں بیرونی ثقافتوں کا نقش عربوں کی زندگی میں شامل رہا- عرب میں ایرانی، رومی، مصری اور حبشی زبانوں کے علاوہ ہندی کے مشابہ الفاظ جن کا ذکر آگے آئے گا داخل ہونے کا سبب یہی تجارتی رابطہ تھا-

عرب کے معاشرتی کوائف:


عرب معاشرہ قدم ترین زمانوں سے دو واضح حصوں میں منقسم چلا آتا ہے "اہل حضر" یعنی مقیم اور "اہل بدو" خانہ بدوش- مختصراً انھیں بدو اور حضر کہا جاتا ہے علاوہ ازیں "اہل المدر" مٹی گارے والے اور "اہل الوبر" پشم والے بھی ان ہی کے لقب ہیں کیونکہ بدو پشم کے بنے ہوئے خیموں میں رہتے ہیں اور حضری مٹی گارے سے بنے گھروں میں رہتے ہیں یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ بدو اور حضر کی یہ تقسیم بنیادی طور پر نسلی نہیں بلکہ معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی ہے جہاں جہاں کنوؤں، چشوں اور بارانی پانی سے کھیتی باڑی ممکن تھی یا کھجوروں کے جھنڈ معاشی کفالت کے ضامن تھے وہاں مستقل سکونت رکھنے والی آبادیاں وجود میں آ گئیں تھیں- سرزمین عرب کا تین چوتھائی حصہ چونکہ پانی کی قلت کے سبب ناقابل کاشت ہے اور اسی نسبت سے حیواناتی زندگی بھی کم ہے اور شکار کو زریعہ معاش بنانا ممکن نہیں لہٰذا خانہ بدوشی کا راستہ باقی رہ جاتا ہے یعنی جانور پال کر گھاس چارے کی تلاش میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے رہنا-
بدو و حضر کے بارے میں اکثر محققین کی رائے یہ ہے کہ ان میں اولیت بدوی زندگی کو حاصل ہے اور بدوؤں ہی میں سے بعض قبائل نے زرخیز مقامات پر سکونت اختیار کر کے اہل حضر کی صورت اختیار کر لی چنانچہ اہل حضر اب تک قبیلوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں جو کہ ان کے بدوی ماضی کا سراغ مہیا کرتے ہیں بدوی سے حضری کی طرف اس سفر کی دلیل خانہ بدوش قبائل کے مختلف مدارج میں ملتی ہے چنانچہ بدو اور حضر کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ اور بھی پایا جاتا ہے مثلاً وہ بدو جو جانور پالنے کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کر لیتے ہیں اور وہ جو صرف بھیڑ بکریاں پالتے ہیں لہٰذا شہری آبادی کے نزدیک قیام کرتے ہیں ان کے مقابلے میں اونٹ پالنے والے زیادہ آزاد، خود سر اور طاقتور ہوتے ہیں اور صحرا کے اندر دور تک ان کی رسائی ممکن ہوتی ہے یہ لوگ زیادہ پکے خانہ بدوش ہوتے ہیں- بدوی سے حضری کی طرف یہ سفر آج بھی جاری ہے اور جدید دور میں اس کی رفتار تیز تر ہو گئی ہے چنانچہ شتربانوں کا طبقہ روز بہ روز کم ہوتا جا رہا ہے اور بدوؤں کی اکثریت صحرا کے نزدیکی کناروں پر مرتکذ ہوتی جا رہی ہے- بدوی حضری گرہوں کی یہ تقسیم اگرچہ حصول معاش اور جغرافیائی بنیادوں پر استوار ہے تاہم دونوں کے طرز معاشرت میں واضح فرق ہے دونوں کی ثقافت بالکل جداگانہ خطوط پر آگے بڑھتی ہے اور دونوں کے مزاج، خیالات اور طرزفکر الغرض زندگی کے تمام تر سانچے ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں- بدوؤں کی نگاہ میں جو اب کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں، حضری زندگی ایک ذلت آمیز بوجھ ہے جس سے وہ سخت گھبراتے ہیں اور صحرا کی وسعتوں میں آزادانہ بودوباش کے شیدائی ہیں دوسری طرف اہل حضر کیلئے خانہ بدوشانہ زندگی کا تصور ہی جانکاہ ہے وہ بدوؤں کو جاہل اور گنوار خیال کرتے ہیں- بدو آزاد منش ہوتے ہیں ان کے اپنے قبائلی قانون کے علاوہ کوئی اور قانون ان پر لاگو نہیں کیا جا سکتا- حضری آسانی سے مطمیع فرمان بنائے جا سکتے ہیں اور ان میں ریاست کی تشکیل کے بہتر امکانات پائے جاتے ہیں صحرا نشینوں کی زندگی میں اولین حوالہ خون کا حوالہ ہوتا ہے زمین ثانوی حیثیت رکھتی ہے جس کی انفرادی ملکیت کا تصور ان کے ہاں نہیں پایا جاتا بلکہ مخصوص چراگاہیں یا چشمے مخصوص قبائل کی اجتماعی ملکیت سمجھے جاتے ہیں جن کی خاطر پورا قبیلہ کٹ مرتا ہے- اہل حضر میں اگرچہ ماضی کی یادگار کے طور پر قبیلوں کی نسبتیں باقی رہتی ہیں تاہم ان کے ہاں زمین کا حوالہ زیادہ نمایاں ہونے لگتا ہے اور زمین کی انفرادی ملکیت کا تصور پایا جاتا ہے- بدو کی دولت کا شمار اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی صورت میں کیا جاتا ہے جبکہ حضری کے ہاں کھجور کے باغوں اور قابل کاشت زمینوں سے دولت کا اندازہ کیا جاتا ہے- یہ حقیقت ہے کہ بدو کے ہاں صحرائی بودوباش سے دلی ربط اور مدنیت سے بیزاری پائی جاتی ہے تاہم یہ خیال کرنا درست نہیں کہ وہ محض بےمقصد آوارگی کا خواہاں ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز حیات صحرائی تقاضوں کا نہایت منطقی ردعمل ہے-
لباس، ہتھیار اور بعض دیگر صنعتوں کے حوالے سے بدوی کو بہرحال حضری سے تعلق رکھنا پڑتا ہے لیکن بدو نے زراعت اور کاشتکاری کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور شیوۂ مردانگی کے برخلاف سمجھا ہے اپنی ضرویات اہل حضر سے حاصل کرنے کیلئے یا تو وہ تبادلۂ جنس کرتا ہے یا پھر لوٹ مار، چنانچہ ان کے ہاں تاجر اور قزاق کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے چڑھائی کرنا اور ڈاکہ زنی اس کی ضرورت بھی ہے اور دلپسند مشغلہ بھی، اس لیے قبائل میں مار دھاڑ کا بازار گرم رہتا تھا- بدو بیک وقت نہایت آزاد اور ازحد پابند ہوتا ہے انفرادی طور وہ تندخو، غیور، آزاد، منہ پھٹ اور جلد بھڑک اٹھنے والا ہوتا ہے صحرا کی بودوباش نے اسے کبھی محکوم نہیں بننے دیا لہٰذا اس کے ہاں بے دھڑک اور بے جھجھک زندگی بسر کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے حتیٰ کہ قبیلے کے سردار یا شیخ سے ایک عام فرد قبیلہ کی ملاقات بھی کسی قسم کے رسمی آداب کی پابند نہیں ہوتی لیکن دوسری طرف قبیلے کی وحدت اس قدر اہم ہے کہ شہد کے چھتے کی مانند اس میں فرد کے ذاتی رجحانات بے معنی ہیں قبیلے سے الگ ہو کر صحرا میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہے اس لیے بہر رنگ و بہر طور اسے قبیلے کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے خواہ ذاتی طور اسے اس فیصلے سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو- اگر قبیلہ کسی فرد کو عاق کردے یا وہ قبیلے کے کسی فرد کا خون کرکے فرار ہو جائے تو زمیں و آسمان اس کیلئے تنگ ہو جاتے ہیں- ایسا شخص "طرید" دھتکارہ ہوا ہوتا ہے اسے لامحالہ کسی دوسرے قبیلے کے ساتھ خود کو منسلک کرنا پڑتا ہے اور وہاں وہ "دخیل" باہر سے آیا ہوا ہوتا ہے- بدو کے ہاں خون کا حوالہ اہم ترین ہوتا ہے اور وہ نسب کو بہت اہمیت دیتا ہے ہر شخص کے ساتھ ابن فلاں کا ذکر ضروری سمجھا جاتا ہے اور قبیلے کا مجموعی نسب پشت در پشت یاد رکھا جاتا ہے چنانچہ دور جاہلیت میں علم الانساب عربوں کے اسی میلان کا مظہر تھا قبیلہ پدری نظام کے تحت چلتا ہے اور بنو فلاں کے کے نام سے معروف ہوتا ہے- نامساعد حالات میں زندگی بسر کرنے کے باعث بدو کی طبیعت میں درشتی اور اکھڑ پن پایا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عہد پاسداری، مہمان نوازی اور عشق و محبت کے لطیف احساسات بھی اس کی سرشت میں شامل ہیں اب سے نصف صدی پہلے تک بھی بدو کی معاشرت عین ویسی ہی تھی جیسی صدیوں پہلے تھی- اگرچہ بدو و حضر کے قدیم فرق کی نمائندگی صحرا کی وسعتوں اور چھوٹی بستیوں میں اب بھی کسی حد تک باقی ہے لیکن گزستہ چالیس پچاس برس میں تغیر کی رفتار اچانک اتنی تیز ہو گئی ہے کہ جو کچھ صدیوں میں تبدیل نہ ہو سکا تھا وہ دیکھتے دیکھتے بدلتا چلا جا رہا ہے پٹرول کی دریافت کے بعد سے دولت عام ہو گئی ہے اور شہروں میں پختہ سڑکوں، اعلیٰ سے علیٰ موٹرکاروں، ائیرکنڈیشنڈ مکانوں، جدید ترین ہوٹلوں، ہوائی جہاز، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ جیسے ذرائع کی فراوانی ہے- کھجور پر انحصار ختم ہو گیا ہے اور بند ڈبوں میں باہر سے آئے ہوئے پھل، سبزیاں، دوھ اور گوشت اپنی بہار دکھا رہے ہیں الغرض صحرائی وہ سخت جان روایات جو صدیوں اپنی اصل پر باقی رہیں اب کوئی دن کی مہمان نظر آتی ہیں-

ہفتہ، 11 جنوری، 2014

عرب مستعربہ "قوم قریش"

قوم قریش یا قبیلہ قریش کو جزیرہ نمائے عرب میں نہایت معزز حیثیت حاصل تھی جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے- قریش وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں ایک روایت کے مطابق آپُ کے جد اعلیٰ نضر بن کنانہ کو پہلے پہل قریش پکارا گیا- نضر بن کنانہ کا لقب قریش یوں ہوا کہ ایک دن نضر بن کنانہ اپنی قوم کی چوپال میں آیا تو موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا دیکھو وہ نضر ایک بڑا زبردست طاقتور معلوم ہوتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قریش کا یہ نام ایک بحری جانور کے نام پر رکھا گیا جسے قریش کہا جاتا تھا جو تمام دوسرے بحری جانوروں کو کھا جاتا تھا اور چونکہ وہ بحری جانوروں میں سب سے زیادہ قوی اور طاقتور تھا اس لئے نضر بن کنانہ کو اس سے مشابہت دی گئی- بعض روایات میں نضر بن کنانہ کے پوتے فہر بن مالک کی وجہ سے اس خاندان کا نام قریش ہوا فہر بن مالک عرب میں سب سے طاقتور تھا- یہ لوگ سمندر سے قریب رہنے کی وجہ سے یقیناً سمندری مخلوق سے واقف تھے اس لیے اپنے آپ کو قریش کہلوایا ہو گا- یہ بھی روایت ہے کہ قریش کے تاجر پیشہ ہونے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا ہو کیونکہ "نقرش" کے معنی تجارت کے ہیں- بہرحال اس امر پر تمام مورخین متفق ہیں کہ قریش عرب کی سرزمین پر ایک نہایت طاقتور خاندان، قبیلہ اور قوم تھی- تجارت پیشہ ہونے کی وجہ سے قبیلہ قریش ٹولیوں اور گروہ کی شکل میں جزیرہ عرب میں پھیلی ہوا تھا- قصیٰ بن کلاب نے اس پھیلے  اور بکھرے  ہوئے قبیلے کو مکہ کے گرد و نواح میں جمع کرکے ایک قوم کی شکل میں یکجا کر دیا- قصیٰ بن کلاب کا اصل نام زید تھا قوم قریش کو جمع و یکجا کرنے کی وجہ سے قصیٰ پکارا جانے لگا جس کے معنے ہیں جمع و یکجا کرنے والا- قصیٰ بن کلاب نے نہ صرف قریش کو یکجا کیا بلکہ ایک شہری حکومت بھی قائم کی جو مکہ کے گرد و نواح میں تھی پوری قوم اس کے قوانین کی پابند تھی جو قصیٰ بن کلاب نے نافذ کیے تھے یہ قوانین انھوں نے ہر معاشرتی ضرورت کیلئے وضع کیے تھے مثلاً تجارتی قافلے اور لیں دین، جنگی حکمت عملی اور آداب، حج کے موقعے پر حجاج کی خدمت، لوگوں میں محاسن اخلاق کی تعلیم اور میزبانی بہترین مثالیں ہیں- قصیٰ نے مکہ میں ایک بڑی عمارت تعمیر کروائی جس کا نام "دارالندوہ" رکھا یہاں قریش اپنے تمام امور طے کرتے تھے- جب قصیٰ بن کلاب بہت بوڑھا اور ضعیف ہوا اس وقت تک عبدالدار اس کا سب سے بڑا بیٹا بھی ضعیف ہو چکا تھا البتہ عبدمناف اپنے باپ ہی کے سامنے بڑا معزز شخص ہو گیا تھا اور اسے دنیا کا ہر طرح کا تجربہ ہو گیا تھا اور تیسرا بیٹا عبدالعزیٰ بن قصیٰ تھا- قصیٰ بن کلاب نے اپنے بڑے بیٹے عبدالدار سے کہا میں تجھے اپنی قوم سے ملاتا ہوں اگرچہ وہ شرافت میں تجھ سے بڑھ گئے ہیں مگر جب تک تو کعبے کا دروازہ نہ کھولے ان میں سے کوئی اس میں داخل نہ ہوگا تیرے سوا کوئی دوسرا جنگ کا جھنڈا نہ باندھے گا سب تیرے سقایہ سے پانی پیئں گے حج کے زمانے میں سب تیرے ہاں مہمان ہونگے اور تیرے ہی مکان میں قریش اپنے تمام معاملات طے کریں گے اس طرح قصیٰ بن کلاب نے دارالندوہ جہاں قریش اپنے معاملات طے کرتے تھے عبدالدار کے حوالے کر دیا اور یوں بنو قصیٰ کے مورث اعلیٰ قرار پائے-
رفادہ کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں قریش کچھ مال اپنی آمدنی سے نکال کر قصیٰ بن کلاب کو دیدیتے تھے یہ اس سے حاجیوں کیلئے کھانا پکواتے جس سے الله کے مہمانوں کے طعام کا اہتمام کیا جاتا اور جن حاجیوں کے پاس زادراہ نہ بچا ہوتا تھا ان کی مدد کی جاتی- قصیٰ بن کلاب نے یہ چندہ اپنی قوم پر واجب کر دیا تھا اور کہا تھا "اے قریش تم اللہ کے ہمسائے اور اس گھر یعنی حرم والے ہو، حاجی اللہ کے مہمان اور اس گھر کے زائر ہیں اس لئے وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ عزت کے ساتھ ان کی مہمان داری کی جائے تمھیں چاہیئے کہ زمانہ حج میں ان کیلئے کھانے اور پینے کا انتظام کرو" انھوں نے قصیٰ کا کہا مانا وہ اس کیلئے ہر سال اپنے مال میں سے کچھ حصہ بچا کر قصیٰ کو دیدیتے تھے یہ دستور قوم قریش میں قصیٰ بن کلاب کے بعد عبدالدار بن قصیٰ سے لیکر تمام عہد جاہلیت میں برابر قائم رہا اور عہد اسلام میں بھی جاری رہا چنانچہ اب تک جاری اور ساری ہے اب یہ کھانا زمانۂ حج میں حکومت وقت ہر سال منیٰ میں پکوا کر حاجیوں کو مہیا کرتی ہے- قصیٰ بن کلاب نے اپنی زندگی ہی میں یہ تمام ذمہ داریاں عبدالدار کے سپرد کر دی تھیں اور پھر قصیٰ بن کلاب بھی اس کے کسی انتظام یا حکم میں دخل نہیں دیتا تھا اس کے انتقال کے بعد اس کے سب بیٹے ان فرائض و ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے -
عبدمناف بن قصیٰ کے چار بیٹوں میں ایک حضرت ہاشم جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا بھی تھے جنھوں نے اپنے دادا قصیٰ بن کلاب کے وضع کردہ انتظامی ذمہ داری کو بہت خوش اسلوبی سے نبھایا ہاشم کا نام عمرو تھا ہاشم اس لیے مشہور ہوا کہ مکہ میں سب سے پہلے روٹیوں کو شوربے میں توڑ کر "ثرید" اپنی قوم کو کھلایا تھا- قوم قریش قحط اور افلاس کی وجہ سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئی تھی ہاشم فلسطین گئے اور وہاں سے بہت سا آٹا لے کر مکہ آئے اس کی روٹیاں پکوائیں اور بہت سے جانور ذبح کرکے اس کا شوربے والا سالن تیار کروایا اور روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو کر ثرید تیار کرواکر اپنی قوم کی دعوت کی جس کی وجہ سے قریش نے ہاشم کا لقب دیا- ہاشم نے بین الاقوامی تجارت کا آغاز کیا گرمی اور سردی کے موسم میں الگ الگ تجارتی قافلے روانہ کئے جاتے تھے جو مختلف سمتوں میں سفر کرتے ہوئے تجارتی سامان کی خرید و فروخت کیا کرتے تھے اس طرح مکہ دنیا کا تجارتی مرکز بن گیا تھا جس سے قریش میں دولت کی فراوانی ہوئی جو قریش کی خوشحالی کا باعث بنی تو دوسری طرف قریش دنیا کے دیگر ممالک میں پہچانے جانے لگے قرآن میں ایک مختصر سورت "قریش" کے نام سے نازل ہوئی-
ارشاد باری تعالیٰ ہے چونکہ قریش مانوس ہوئے جاڑے اور گرمی کے سفروں سے لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا- اس سورت کی تفسیر میں علماء اور مفسرین کہتے ہیں کہ سورت کا لفظ "ایلاف" الف سے بنا ہے جس کے معنی خوگر اور مانوس ہونے کے ہیں اس کے دوسرے معنی پھٹنے کے بعد مل جانے کے یا کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں یہ لفظ اردو میں بھی بولا جاتا ہے الفت اور مالوف اسی لفظ سے ماخوز ہیں یہ تعجب کا اظہار کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے- پھر ان کی تجارت کا ذکر ہے جو یہ گرمی اور سردی کے موسم میں کیا کرتے تھے گرمی اور سردی کے سفر سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی سفر شام و فلسطین کی جانب ہوتے تھے وہ نسبتا ٹھنڈے علاقے تھے اور سردی کے موسم میں سفر وہ جنوبی عرب کے اطراف کیا کرتے تھے کیونکہ وہ گرم علاقے تھے پھر تیسری آیت مبارکہ میں فرمایا کہ قریش کو یہ نعمت اس گھر کی بدولت حاصل ہوئی- وہ یہ جانتے تھے کہ اس گھر کے رب نے ان کو اصحاب فیل سے بچایا انھوں نے ابرہہ کی فوج کے مقابل مدد مانگی تھی اس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب کے صحرا میں منتشر تھے تو ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی وہ عام قبائل کی طرح بکھرے ہوئے تھے مگر جب بیت اللھ کے گرد جمع ہو گئے اور اس کی خدمت انجام دینے لگے تو وہی قریش پورے صحرائے عرب میں محترم ہو گئے پھر آخری آیت میں نشاندہی کی گئی کہ جس خوف سے عرب کی سرزمین میں کوئی محفوظ نہیں تھا یہ محفوظ رہے- اس وقت پورے عرب کا یہ حال تھا کہ کوئی نفس چین سے نہیں سو سکتا تھا کہ کب کوئی گروہ ان پر شب خون مارنے والا ہے کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے ہر وقت ڈاکہ زنی کا خطرہ موجود تھا مگر قریش کے قافلے آسانی سے تجارتی مقاصد کے لیے سفر کیا کرتے تھے- اصحاب فیل کے واقعے کے بعد قریش کی دھاک بیٹھ گئی تھی ہر قبیلہ یہ فرض کئے ہوئے تھا کہ اللہ ان پر خصوصی طور پر مہربان ہے اس آیت مبارکہ میں ایک اور واضح اشارہ مل رہا ہے کہ جب قریش عرب میں منتشر تھے تو بھوکوں مر رہے تھے یہاں بسنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے- قریش کی بھلائی اتحاد اور کعبة اللہ کے تعلق میں مضمر ہے-
قرآن کریم میں مذکور اقوام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ روئے زمیں پر بہت سی قومیں پیدا ہوئیں ان پر انبیاء مبعوث ہوئے پھر انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا گیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل ان پر صرف توحید کی تعلیم تھی اس مختصر سی تعلیم میں بھی انھوں نے شرک کو شامل کر لیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا- جنھوں نے پیغمبر کا انکار کیا وہ قومیں نیست و نابود ہو گئیں جس نے پیغمبر کا ساتھ دیا اور ان کی تعلیمات کو مانا وہ عذاب الٰہی سے بچ گئیں صرف قریش ہی وہ واحد قوم ہے جو خوش قسمتی سے مکمل طور پر محفوظ رہی جو یقیناً دعائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا سبب ہے-

پیر، 6 جنوری، 2014

عربوں کا قدیم انساب:


عرب بائدہ سے مراد قدیم قبائل ہیں جو یکسر نابود ہو گئے ہیں اور انکے محض  قصے کہانیاں باقی رہ گئے ہیں- ان میں قوم عاد، ثمود، طسم اور جدیس سرفہرست ہیں بائدہ کے مقابلے میں عرب باقیہ آتے ہیں یعنی وہ قبائل جو بچ رہے اور انکی نسل منقطع نہ ہوئی جیسا جدول سے ظاہر ہے ان کے دو گروہ عاربہ اور مستعربہ ہیں عرب عاربہ یعنی اہل یمن مراد ہیں جن کو ان کے جد اعلی قحطان کی نسبت سے قحطانی بھی کہا جاتا ہے- عرب مستعربہ سے شمالی عرب مراد ہیں یہ عدنان کی اولاد ہیں اس لئے عدنانی کہلاتے ہیں-

عرب بائدہ:
قوم عاد:
قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی جس کا ذکر بطور عبرت بار بار قران میں آیا ہے ان لوگوں کا مسکن "احقاف" کی سرزمین تھی جس کے نام سے چھیالیسویں سورت موسوم ہے قرآنی آیات کے مطالعے سے ان لوگوں کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طور پر قوی ہیکل تھے جس کسی پر گرفت کرتے بڑی سخت کرتے اپنی اس طاقت کا ان میں زعم بےجا پیدا ہو گیا تھا اور وہ کہتے تھے "بھلا ہم سے بڑھ کر طاقت والا کون ہے" بڑے خوشحال اور متمدن تھے فن تعمیر میں انھیں بڑی دسترس حاصل تھی چنانچہ نہ صرف بڑی شان و شوکت کے محل اور قلعے تعمیر کرتے تھے بلکہ جابجا پہاڑی دروں میں یا بلند ٹیلوں پر محض تفریح طبع یا خوش مذاقی کے نقطہ نظر سے یادگار عمارتیں بنانا بھی ان کا مشغلہ تھا- حضرت ہود علیہ السلام کی تمام تر تبلیغ و تذکیر کے باوجود انھوں نے صرف ہدایت پر کان نہ دھرے اور اپنے آبائی معبدوں کو ترک کرنا گوارا نہ کیا مزیدبراں تکذیب اور اکڑ کا رویہ اختیار کیا نتجتاً ان پر ذلیل کر ڈالنے والا عذاب نازل ہوا جس نے ان کو مکمل طور پر برباد کر کے رکھ دیا اور سوائے حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے صحابہ کے کوئی جیتا نہ بچا- یہ عذاب ایک حد سے گزر جانے والی تندوتیز ہوا کی صورت میں آیا جسے قرآن پاک میں "ریح صرصر" تند ہوا "الریح العقیم" بانجھ یعنی بےبرکت ہوا اور "ریح فیہا عذاب الیم" ہوا کہ جس میں دردناک عذاب تھا سے تعبیر کیا گیا ہے یہ سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہی اور انھیں کھجور کے ڈھئے ہوئے تنوں کی طرح پچھاڑ کر رکھ دیا یہ جس چیز کی طرف رخ کرتی اسے گلی سڑی ھڈی کی طرح بےجان کر کے رکھ دیتی تھی الغرض قوم عاد کے گھروں کے سوا کچھ باقی نہ بچا-

قوم ثمود:
قوم ثمود کا مسکن "وادی القریٰ " کا علاقہ بتایا جاتا ہے جو جزیرہ نمائے عرب کے شمالی مغربی حصے میں ہے ان کا دارالحکومت مقام حجر تھا جو حجاز سے شام کو جانے والی قدیم شاہراہ پر واقع ہے اور اب "مدائن صالح" کے نام سے پہچانا جاتا ہے قرآن مجید میں صراحت و تفصیل کے ساتھ جہاں جہاں ثمود کا ذکر آیا ہے اس سے اس قوم کی تصویر کچھ یوں سامنے آتی ہے- قوم عاد کے بعد قوم ثمود کو عروج ملا یہ بھی بڑے خوشحال تھے چشموں، باغوں، لدے پھدے نخلستانوں اور کھیتوں کے مالک تھے فن تعمیر میں انھیں بھی قوم عاد کی طرح عروج حاصل تھا چنانچہ میدانوں میں محلات کھڑے کرتے تھے اور پہاڑوں پر بڑی ہنرمندی اور چابکدستی سے گھر تراشتے تھے ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا آپ نے بہت تبلیغ کا کام کیا الله کی نعمتیں جو ان پر تھیں  یاد دلائیں لیکن انھیں راہ حق پر شک اور اپنے آبائی معبدوں پر اسرار رہا اور انھوں نے بھی دوسری بدنصیب اقوام کی طرح پیغمبر کو جھٹلایا انھوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے معجزہ طلب کیا چنانچہ الله تعلیٰ کی طرف سے ایک اونٹنی معجزے کے طور پر ظاہر کی گئی جو ان کیلئے ایک آزمائش ثابت ہوئی حضرت صالح علیہ السلام نے ہدایت فرمائی کہ الله کی اس اونٹنی کا نیز اس کے کھانے پینے کی باری کا خیال رکھنا اس کی باری مقرر ہے اسے چرنے چگنے دو اور کسی قسم کا ضرر نہ پہنچاؤ مبادا تم پر عذاب نازل ہو- حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت پر صرف کچھ زیردست و ناتواں لوگ ایمان لائے متکبر سرداروں نے کفر اختیار کیا پیغمبر اور ان کے اصحاب کو موجب بدشگونی قرار دیا شہر میں ٩ آدمی ازحد فسادی تھے انھوں نے ایک دوسرے کو قسمیں دلائیں کہ مل جل کر حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے متعلقین کو شب خون مار کر ہلاک کر ڈالیں اور پھر جرم سے مکر جائیں لیکن ان کی تدبیر کو الله کی تدبیر نے توڑ دیا بالآخر ان کی ساری جمیعت نیست و نابود ہوئی اور ان کے گھر ان زیادتیوں کی پاداش میں ویران ہو گئے- عذاب کی صورت یہ ہوئی کہ انھوں نے اونٹنی کی حرمت کو ملحوظ رکھنا قبول نہ کیا اور پیغمبر کی تمام تنبیہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سر کشی کی راہ اختیار کی اور قوم کے سخت بدبخت شخص کو دعوت دےدی روایات میں اس شخص کا نام قدار بن سالف بتایا گیا ہے اونٹنی ہلاک کرنے کے سبب اسے "عاقرالناقه" بھی کہا جاتا ہے سو وہ اٹھا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر انھوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ پیغمبر ہیں تو لیجئے جس عذاب سے ڈراتے دھمکاتے تھے اب ہم پر ڈلوائیے- حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا بس تین دن اپنے گھروں میں کھا کھیل لو یہ اٹل بات ہے چنانچہ تین دن بعد عذاب آیا اور انھیں اپنے کیئے پر پریشانی اٹھانا پڑی- اس عذاب نے ان سب کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے یوں جیسے کبھی ان میں رہے بسے ہی نہ تھے- قوم ثمود پر نازل ہونے والا عذاب تیز آواز والے زلزلے کی صورت میں نازل ہوا اس عذاب کو قرآن پاک میں "صیحۃ" تند آواز، "صیحۃ واحدۃ" یکبارگی تند آواز، "الطاغیۃ" حد سے گزری ہوئی آواز اور کہیں "الرجفۃ" یعنی زلزلہ کہا گیا-

عرب باقیہ:
عرب عاربہ:
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ عرب عاربہ سے مراد یمنی الاصل قبائل ہیں یمن کا مختصر ذکر بھی گذر چکا ہے جزیرہ نما کا جنوبی حصہ ایک قدیم تہذیب کا مدفن ہے- مغربی ماہرین آثار قدیمہ کی جانفشانیوں کے نتیجے میں اس سرزمین سے قدم کتبے بڑی تعداد میں برآمد ہوئے ہیں جن کا زمانہ ٨٠٠ قبل مسیح تک بتایا جاتا ہے بعد کی تحقیقات سے ١٢٠٠ ق م تک چلا گیا ان کتبوں کی زبان قدیم جنوبی عربی ہے جو اب معدوم ہو چکی ہے جو شمالی عربی یعنی موجودہ عربی سے یکسر مختلف ہے ان کتبوں کا رسم الخط عربی اصطلاح میں المسند کہلاتا ہے کتبوں کے علاوہ قدیم سکوں کی دریافت سے بھی یمن کی قدیم تاریخ پر روشنی پڑتی ہے ان تمام آثار سے بڑی منظم اور متمدن حکومتوں کا سراغ ملتا ہے جن کی زبان ثقافت اور مذھب کی تفصیلات ایک الگ مطالعے کا موضوع ہیں اور ہمارے دائرۂ بحث سے سردست خارج ہیں ہماری دلچسپی کی چیز ان علمی اور اثراتی تحقیقات سے بڑھ کر روایات، داستانیں اور انساب ہیں جو اپنی اصل میں نیم تاریخی اور نیم اساطیری حیثیت رکھتے ہیں لیکن عربوں کے اجتماعی لاشعور اور معاشرت پر ان کا گہرا اثر ہے- روایات کے مطابق قحطان اہل یمن کا جد اعلی اور ان کا پہلا بادشاہ تھا اس کے بعد اس کا بیٹا یعرب بن قحطان تینتیس ٣٣ برس تک حکمران رہا اور یہی وہ شخص تھا جس نے عرب بائدہ کی صحبت میں عربی زبان اختیار کی اور پھرشمالی عرب کے عدنانی قبائل نے اس سے اخذ کی اس کے بعد اس کے بیٹے عبد شمس سبا نے پینتیس ٣٥ برس حکومت کی یہ شخص مشہور بند "سد مارب" کا بانی سمجھا جاتا ہے اور ملک سبا کے ایک بہترین اور اعلیٰ حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے- سبا کا ذکر قرآن پاک میں ایک قبیلے یا مملکت کی حیثیت سے آیا ہے جس سے انکی قوت و شوکت، خوش حالی و فارغ البالی اور پھر ناشکری کے سبب سزایابی کا علم ہوتا ہے ان کی ملکہ کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جو واقعہ پیش آیا اس کا ذکر تورات، انجیل اور قرآن پاک میں ملتا ہے عام روایات کے مطابق ملکہ کا نام بلقیس بنت شرجیل تھا ملک سبا کے دارالحکومت مارب کے جنوب مغرب میں چند میل کے فاصلے پر کوہسار ابلق کے دو حصوں کے درمیان وادی ادینہ کے سیلاب کی روک تھام نیز آبپاشی کی غرض سے عبد شمس سبا نے ایک زبردست بند تعمیر کیا تھا جو سد مارب کے نام سے مشہور ہے یہ سد ایک تاریخی حقیقت ہے جس کے کھنڈرات آج بھی باقی ہیں- Th S Arnaud نے ان آثار کو دریافت کیا اور ١٨٤٣ میں جاں کی بازی لگا کر ساٹھ کے قریب کتبے نقل کئے اور ان آثار کا تفصیلی بیان فرینچ ایشیاٹک سوسائٹی کے جرنل میں کیا- سید سلیمان ندوی کے بقول Arnaud کی مہیا کی ہوئی تفصیل طبری اور بغوی کی تفسیر میں دی ہوئی تفصیلات سے مطابقت رکھتی ہیں سد مارب انجینئرنگ کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا- اس میں اوپر سے نیچے تک بہت سی کھڑکیاں تھیں جو حسب ضرورت کھولی اور بند کی جا سکتی تھیں مشرق و مغرب کی سمت دو بڑے بڑے دروازے تھے جن سے پانی تقسیم ہو کر زمینوں کو سیراب کرتا تھا- سد مارب کی تباہی کا باعث ایک زبردست سیلاب بتایا جاتا ہے جس کے بعد اہل یمن کی شوکت و عظمت کا سورج غروب ہو گیا اور بہت سے شمالی عرب کی جانب ہجرت کر گئے- جس سیلاب سے سد مارب کی تباہی ہوئی اس کو "سیل العرم" کہا جاتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں وارد ہوا ہے- ترجمہ: "بالیقین اہل سبا کیلۓ ان کے مسکن میں ایک نشانی تھی دو باغ دائیں اور بائیں- اپنے پروردگار کے رزق میں سے کھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ طیب و عمدہ شہر بخشنے والا رب- سو انھوں نے روگردانی کی پس ہم نے ان پر سیل العرم چھوڑ دیا" اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل یمن پر یہ سیلاب عظیم بطور سزا کے آیا جس سے ان کی خوشحالی اور فراوانی جاتی رہی- سیل العرم کو تنگی رزق اور سلب نعمت کا سبب بتایا گیا ہے نہ کہ جلا وطنی و دربدری کا، سید سلیمان ندوی کی رائے میں اس دربدری کا سبب یہ ہوا کہ یونانیوں اور رومیوں نے ہندوستان اور افریقہ کے مابین تجارت کو بری راستے سے بحری راستے یعنی بحر احمر کی طرف منتقل کر دیا تھا اور تبدیلی کے باعث یمن سے شام جانے والی وہ شاہراہ تجارت اجڑ کر رہ گئی جس پر سبا کی اقتصادیات کا دارومدار تھا- بہرحال زوال و انتشار کا سبب جو کچھ بھی رہا ہو یہ بات طے شدہ ہے کہ طلوع اسلام سے پہلے کی صدی میں یمن کا آفتاب بعض وجوہات کی بناء پر غروب ہو چکا تھا اور ان کی عظمت پارنیہ قرآن کے الفاظ کے بموجب افسانے اور داستانیں بن کر رہ گئی-
اہل یمن کی بربادی میں بچی کچی کسر کو ابرہہ نے اپنے مکروہ ارادے سے پورا کر دیا جب ابرہہ نے خانہ کعبه کو منہدم کرنے کیلۓ لشکر کشی کی اس مہم کی تفصیلات کتب تاریخ و سیرت میں مذکور ہیں مختصر یہ کہ یہ لشکر جس میں تیرہ ہاتھی بھی شامل تھے مکہ پر حملہ آور ہوا اس اثنا میں سمندر کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ نمودار ہوئے جنھوں نے دونوں پنجوں اور چونچ میں ایک ایک سنگریزہ مسور یا چنے کی دال کے دانے کے برابر تھاما ہوا تھا یہ کنکریاں جس جس کے جا لگیں وہ ہلاک ہوا لشکر یمن نے گرتے پڑتے راہ فرار اختیار کی اور جابجا راستے میں مرتے گئے ابرہہ کو ایسی بیماری ہوئی کہ اس کے اعضاء گل گل کر ریزہ ریزہ جھڑتے گئے اور خون و پیپ رسنے لگا- روایات عرب میں مذکور ہے کہ چیچک اور خسرہ کا ظہور عرب میں پہلی بار اسی سال ہوا تھا- اس سے اہل دانش نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ابرہہ کی فوج میں چیچک کی وباء پھوٹ نکلی تھی جس سے وہ تباہ و برباد ہو گئی- سید سلیمان ندوی نے اس سلسلے میں یہ قیاس ظاہر کیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ پرندوں کی پھینکی ہوئی کنکریوں میں چیچک کے وبائی جراثیم ہوں- عربوں نے اس سال کو "عام الفیل" ہاتھی کا سال کے نام سے یاد رکھا اسی سال اور بعض روایات کے مطابق اس واقعے سے ٹھیک پچاس روز بعد آنحضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی پھر تقریباً پچاس برس بعد سورہ فیل نازل ہوئی جس میں اس واقعے کا تذکرہ یوں فرمایا،
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا
کیا اس نے ان کی چال کو الجھا کر نہیں رکھ دیا
اور ان پر غول در غول پرندے بھیجے
جو انھیں کنکری کی پتھریوں سے نشانہ بنا رہے تھے
سو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر ڈالا

سورہ فیل ترجمہ: "کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا- کیا اس نے ان کی چال کو الجھا کر نہیں رکھ دیا اور ان پر غول در غول پرندے بھیجے جو انھیں کنکری کی پتھریوں سے نشانہ بنا رہے تھے- سو اس نے انھیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر ڈالا-" یہ سورت غیر مسلم محققین کیلۓ بھی ایک تاریخی سند ہے کیونکہ اس کے نزول کا زمانہ اصل واقعے سے اتنا قریب ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو ہنوز ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے خود اس واقعے کا زمانہ پایا تھا اور اس کا مشاہدہ کیا تھا یا اپنے بڑوں سے اس کے چشم دید واقعات سنے تھے- اس واقعے سے اہل یمن کے غرور کا سورج ہمیشہ کیلۓ ڈوب گیا-