جمعہ، 24 جنوری، 2014

عرب مسلمانوں پر ہندو سماج کے اثرات:

مسلمانوں کا دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ اخلاق ہے اسلام کی تعلیم فہم سے ماورا نہیں ہے ہر حکم اور دلیل عقل و فہم سے ثابت ہوتی ہے اس بات کو غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں میں دینی طور پر تو ہندو مذھب کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن معاشرتی طور پر مسلمان ضرور متاثر ہوئے جبکہ ہندوؤں کی کثیر تعداد نے اپنے سماجی رویوں سے سے اکتاہٹ کا اظہار کیا جس کی وجہ سے بہت سی ہندو آبادی دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی اس اختلاط کی وجہ سے مسلمانوں کے سماجی رویوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں سب سے نمایاں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے بھی مختلف نسبوں سے تعلق رکھنے والوں کا ایک گروپ تشکیل دے لیا جس کو اشراف کہا جانے لگا اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ بعد میں اس تقسیم کو مزید وسعت گئی ١٩٣١ کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی مندرجہ ذیل چار ذاتیں قرار دی گئیں-
١- اشراف -------------- سید، مغل، پٹھان اور شیخ،
٢- مسلم راجپوت -------- نو مسلم اعلیٰ ذات کے ہندو،
٣- میواتی مسلمان ------- نو مسلم دیہاتی ہندو اور عرب بدو،
٤ - پاک کام کرنے والے - روز مرہ کے کام کاج کرنے والے نو مسلم مقامی اور غیر مقامی،
دراصل یہ چار گرہوں میں تقسیم ہندوؤں کی چار ذاتوں میں تقسیم کی نقل تھی یہ تقسیم پھر ایک لمبی تقسیم در تقسیم کی صورت میں ہندوؤں کے ذات پات کے نظام سے بھی زیادہ گھناؤنی شکل اختیار کر گئی جو مسلمانوں میں نفاق کا باعث بنی- 
                                                یوں سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو 
                                                تم سبھی کچھ  ہو  بتاؤ تو  مسلمان بھی  ہو 
اشراف المسلمین میں بھی اعلیٰ اور ادنیٰ کا مسئلہ درپیش رہتا تھا جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے-
١- سید: علامہ سید سلیمان ندوی اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں "ظہور اسلام کے بعد عربوں اور مسلمانوں میں نسبی حیثیت سے سب سے بڑا درجہ سادات کا ہے" موجودہ سادات خاندانوں میں سے زیادہ کا تعلق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے حضرت زین العابدین کی نسل سے ہے حضرت زین العابدین کی والدہ شہربانو عرب نہ تھیں ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایرانی تھیں اور خاندان شاہی سے تھیں مگر مورخوں میں سے بعض نے ان کو سندھ کا بتایا ہے اگر یہ اخیر قول صحیح ہے تو اس کے ماننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے شریف و مقدس خاندان کے نسب میں ہندوستان کا بھی حصہ ہے- سلطان محمود تغلق کی وفات ١٤١٣ کے بعد تغلق دور کا خاتمہ ہو گیا افغان امراء نے زمام اختیار دولت خان کے ہاتھ میں دے دیا مگر جلد ہی لاہور کے گورنر خضر خان نے دہلی پر قبضہ کرکے ١٤١٤ میں سید خاندان کی بنیاد رکھی اس خاندان کے لوگ اپنے نام میں سید کے ساتھ شاہ بھی لگاتے ہیں- سادات کے دو سلسلۂ نسب ہیں اول سادات حسنی اور دوئم سادات حسینی- سادات حسنی حضرت امام حسن رضی الله تعالیٰ عنہ کے دو بیٹوں حسن مثنیٰ اور زید کی اولاد ہیں جبکہ سادات حسینی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ حضرت زین العابدین کی اولاد کو کہتے ہیں یہ دونوں سلسلۂ سادات مسلمانوں کے دونوں فرقوں یعنی شیعہ اور سنی سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ہی خود کو صحیح النسب کہتے ہیں سادات حسنی و حسینی کی مزید شاخیں زیدی، عابدی، باقری، جعفری، موسوی، رضوی اور عسکری وغیرہ کہلاتی ہیں جملہ سادات ہاشمی قریشی ہیں-
٢- مغل: ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیرالدین محمد بابر باپ کی طرف سے ایشیا کے نامور فاتح امیر تیمور کی اولاد تھا اور ماں کی طرف سے اس کا شجرہ نسب چنگیز خان تاتار سے جا ملتا ہے جسے خونی فتوحات کی وجہ سے "قہر الہی" کہا جاتا ہے بابر اپنے آپ کو ہمیشہ ترک کہا کرتا تھا اور تاتاریوں یا منگولوں سے نسبت کو اپنے لئے عار خیال کرتا تھا چونکہ اس زمانے میں برصغیر کے لوگ شمال مغرب سے آنے والے ہر حملہ آور کو مغل کہتے تھے اس لئے مغل کہلائے- مغلوں نے تقریباً تین سو برس سے زائد عرصے ہندوستان پر حکومت کی لہٰذا ہندو مسلمان ان کی عزت کرنے لگے اور انھیں مسلمانو کے اشراف میں شمار کیا جانے لگا- مغل نسب کی وجہ سے اشرف نہیں کہلائے بلکہ جاہ و جلال کی وجہ سے اشرف مانے گئے جو کہ عربوں کے اصول کے خلاف ہے- مغلوں کی ذیلی شاخیں چغتائی، قزلباش، تازک، تیموری، ترکمان، ازبک اور بیگ وغیره ہیں-
٣- پٹھان: حضرت طالوت افغان قوم کے مورث اعلیٰ تھے جن کا تعلق قبطی نسل سے تھا جو فرعون کی شکست کے بعد بنی اسرائیل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غلبہ پانے کی وجہ سے تباہ ہوئی، تاریخ فرشتہ- بعض روایتوں میں انھیں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی اولاد بتایا جاتا ہے- یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام لانے کے بعد ایک خط افغان قوم کو لکھا جس میں ان کو مسلمان ہونے کی دعوت دی چند لوگ مسلمان ہو گئے جن میں ایک شخص قیس بھی تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایمان لاکر عبدالرشید کے نام سے سرفراز ہوا یہ بات اس قوم کے اکابرین کی روایت میں ملتی ہے کہ حضرت عبدالرشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت فتح مکہ کی مہم میں شریک تھی اس لئے وہ فاتحان مکہ کہلائی یہی لفظ فاتحان سے "فتحان" ہو گیا اور پشتو تلفظ کے سبب بعد میں پٹھان کہا جانے لگا یعنی ف "پ" سے اور ت "ٹھ" سے بدل گیا، سید نجم الحسن مولف اشراف عرب- افغانوں کے کچھ قبیلے مثلاً غوری، سوری اور لودھی خود کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر حضرت سارہ کی اولاد بتاتے ہیں اور قریشی کہلاتے ہیں اس لئے کہ ان کے نانا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریشی تھے ہندوستان کے حکمران غوری اور لودھی ان ہی افغان قبائل سے تعلق رکھتے تھے یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ خان کا لقب اختیار کرتے ہیں-
٤- شیخ: شیخ عرب میں آقا یا سردار کے معنے میں بولا جاتا ہے اسی حوالے سے عرب دنیا کے حکمرانوں کے نام کے ساتھ شیخ لگایا جاتا ہے- شیخ کسی کو عزت سے مخاطب کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے یعنی بزرگ اور معزز، ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آنے والے قریش شیخ کہلاتے تھے- قریش کے خاندان بنو اسد میں پیغمبر اسلام کے زمانے میں ہبار بن اسود شخص تھا جو پیغمبر اسلام کا سخت دشمن تھا آخر وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اس کی اولاد میں سے ایک شخص حکم بن عوامہ کلبی والئ سندھ کی معیت میں سندھ میں وارد ہوا اس کا پوتا عمر بن عبدالعزیز ہباری کو سندھ کی ولایت حاصل ہوئی جو منصورہ کا حکم بنا- ٢٧٠ھ میں راجہ مہروگ نے جس کا راج "کشمیر بالا" کشمیر اور "کشمیر زیریں" پنجاب کے بیچ میں تھا جو ہندوستان کے بڑے راجاؤں میں شمار ہوتا تھا، خط لکھ بھیجا کہ کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیجو جو ہم کو اسلام ہماری زبان میں سمجھا سکے عبداللہ بن عمر نے ایک عراقی مسلمان جو بہت تیز طبیعت، سمجھدار اور شاعر تھا اور ہندوستان میں رہا تھا وہ ہندوستان کی کئی زبانیں جانتا تھا، کو ہندو راجہ کے پاس بھیجا جس نے تیس ٣٠ برس میں قرآن کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اس طرح قرآن کا دنیا کی کسی زبان میں پہلا ترجمہ ہباری خاندان کے زمانے میں ہوا شیخ الاسلام زکریا ملتانی اس خاندان میں پیدا ہوئے جو ملتان میں جا کر آباد ہو گیا تھا اس خاندان کی اولاد شیخ قریشی کہلاتی ہے- ہندوستان میں شیخ صدیقی، شیخ فاروقی، شیخ عثمانی، شیخ انصاری اور شیخ ہاشمی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں-
سیدوں کا رہن سہن ایران و عراق اور شام سے متاثر تھا مغل ترک اور تاتاری تہذیب و ثقافت رکھتے تھے پٹھان افغانی روایات پر عمل پیرا تھے شیخ کسی حد تک عربی انداز زندگی اپنائے ہوئے تھے جبکہ نو مسلم راجپوت قدیم ہندوستانی رسم و رواج رکھتے ہوئے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے ان وجوہات کی بنا پر ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت میں ہمہ رنگی پائی جاتی ہے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں