جمعہ، 27 دسمبر، 2013

جزیرہ نما عرب کا محل وقوع:




دنیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ جزیرہ نماۓ عرب جو دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے براعظم ایشیا کے جنوب میں واقع ہے اس کا انتہائی طول بحر احمر کے ساحل پر تقریبا" چودہ سو میل اور انتہائی عرض یمن سے عمان تک بارہ سو پچاس میل ہے اور کل رقبہ دس لاکھ مربع میل کے لگ بھگ ہے تاہم ایک بڑا حصہ بے آب و گیاہ ریگزاروں پر مشتمل ہے اس رقبے کے مقابلے میں آبادی کم ہے جزیرہ نماۓ عرب کے مشرق میں خلیج فارس اور خلیج عمان ہے اور جنوب میں بحرہند، جسے بحرعرب بھی کہتے ہیں اور خلیج عدن اور مغرب میں بحراحمر ہے اس طرح اس سرزمین کے تین اطراف میں پانی ہے چوتھی جانب یعنی شمال میں عراق، شام اور اردن ہیں اس سمت صحرا دور دور تک پھیلا ہوا ہے جو اسے ہمسایہ ممالک سے جدا کرتا ہے اس اعتبار سے قدیم عرب اپنی سرزمین کو "جزیرۃالعرب" کہنے میں حق بجانب تھے کیونکہ یہ جزیرہ نما اصل میں ایک جزیرہ ہی ہے اور باقی دنیا سے بڑی حد تک اس کا پیوند جدا چلا آیا ہے یہی وجہ ہے کہ عرب کا تاریخی ارتقاء ایشیا کے عام تاریخی عوامل کے تابع نہیں رہا اور اسی سبب عرب نسلی اور لسانی اعتبار سے زیادہ خالص رہ سکے ہیں ـ ساتھ ہی ساتھ جزیرہ نماۓ عرب وسییع تر تناظر میں ایک تضاد بھی پیش کرتا ہے یعنی ہرچند ایشیا میں اس کا محل وقوع علیحدگی اور انقطاع کی صورت لیے ہوۓ ہے تاہم بین البراعظمی اعتبار سے یہ سرزمین ایشیا، افریقہ اور یورپ کے درمیان ایک نقطہ ماسکہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے ـ عرب کی ان دو متضاد حیثیتوں کی وجہ سے ایک طرف انقطاعی پہلو رہا اور یہاں کے باشندے بڑی حد تک آس پاس کی دنیا سے الگ تھلگ زندگی بسر کرتے رہے تو دوسری طرف بہت قدیم زمانے سے بین الاقوامی تجارت میں عربوں کو ایک اہم رابطے کی حیثیت حاصل رہی ہےـ
 


مجموعی طور پر عرب ایک سطح مرتفع ہے جو مغرب سے مشرق کی طرف بتدریج ایک ڈھلوان ہے البتہ عمان میں "الجبل الاخضر" کا علاقہ اس ڈھلوان میں ایک کوہان کی حیثیت رکھتا ہے مغرب میں بحراحمر کے کنارے نشیبی علاقہ ہے جو "تہامہ" نشیبی سرزمین کہلاتا ہےـ جزیرہ نما کے وسط میں "نجد" بلند سرزمین ہے اور دونوں کے درمیان "حجاز" آڑ یا روک حائل ہے جنوب مغربی کونے پر یمن ہے یمن بمعنی "دایاں" اور شام بمعنی "بایاں" قابل غور الفاظ ہیں دائیں اور بائیں کا یہ تعین عالبا" مکہ کی نسبت سے ہے جو یمن سے شام جانے والے راستے پر تقربیا" وسط میں واقع ہے اس سے قدیم دور میں مکہ کی اہمیت اور مرکزی حیثیت پر روشنی پڑتی ہے دائیں اور بائیں کے اس تعین میں رخ مشرق کی جانب ہوگا جو مطلع آفتاب ہونے کے باعث ہےـ یمن ایک قدیم تہذیب کا امین ہے اس سے متصل عمان ہے جو جنوب مشرقی کونے تک جا پہنچتا ہے مشرق میں خلیج فارس کے کنارے کنارے قطر، دبئی، ابوظہبی اور دیگر متحدہ امارات نیز بحرین اور کویت کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہیں ـ سرزمین عرب کا ایک قابل ذکر حصہ "حرات" کہلاتا ہے سیاہ بھربھرے پتھروں والی سرزمین گویا حرارت سے تپتی ہوئی زمین ـ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں عرب میں آتش فشاں پہاڑ پھٹتے رہے ہیں جن کے خاموش دہانے آج بھی موجود ہیں آتش فشاں کا آخری واقعہ جو علم میں آتا ہے جولائی ۱۲۵۲ ء میں پیش آیاـ حرات ریتلی چٹانوں پر پھیلے ہوۓ شکن در شکن لاوے کی تہوں سے عبارت ہیںـ 
 مدینہ منورہ کے قرب جوار سے لے کر شام تک حرات کی کثرت ہے اور خود مدینہ بھی دو حرات کے درمیان واقع ہے حرات سفر کے اعتبار سے دشوار گزار ہوتے ہیں اور جانوروں کے پیروں کو زخمی کر ڈالتے ہیں تاہم ان کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان میں معدنی اجزاء کی فراوانی ہوتی ہے جن کے اثر سے آس پاس کی زمین بہت زرخیز ہو جاتی ہے چنانچہ تبوک، تیماء، خیبر اور مدینے میں سرسبز نخلستان پاۓ جاتے ہیں یہ سب حرات کے علاقے ہیں بعض مقامات پر پانی کے کچھ ذخیرے اور کچھ مقامات پر پانی کے کچھ ذخیرے اور کچھ گھاس پھوس پایا جاتا ہے چنانچہ شتربان صحرانشیں یہاں اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں گھومتے پھرتے ہیں جنھیں "دارات" یا جدید لہجے میں "دیرہ" کہتے ہیںـ
 

عرب میں نہ کوئی قابل ذکر جنگل ہے اور نہ کوئی مستقل بہنے والا دریا، البتہ برساتی پانی نے جگہ جگہ اپنی گذرگاہیں بنالی ہیں ایسی ہر گذرگاہ کو اصطلاح میں "وادی" کہا جاتا ہے طوفانی بارشوں کے بعد پانی ایک تند و تیز دھارے کی شکل میں کئی کئی دن اور بعض اوقات کئی کئی ہفتہ ان میں چلتا رہتا ہے اسے "السیل" کہا جاتا ہے سیل بسا اوقات بڑا منہہ زور ہوتا ہے پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں لڑھکا لاتا ہے اور خاصا نقصان کرتا ہے مکہ میں سیل کعبہ کی عمارت تک پہنچ جاتے ہیں تاہم یہ زور شور عارضی ہوتا ہے اور سیل کی یہ گذرگاہیں یا عرب اصطلاح کے مطابق وادیاں جلد خشک ہو جاتی ہیں اور سال کے اکثر حصے میں خشک ہی پڑی رہتی ہیں تاہم ان کی تہوں میں جذب شدہ پانی ہمیشہ موجود رہتا ہے جو کنویں کھود کر حاصل کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں اس نمی کے سبب ان کے قرب و جوار میں نخلستان خوب پھلتے پھولتے ہیں یہ وادیاں انگنت ہیں اور ہاتھ کی لکیروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں مثلا" وادی 'حنیفہ'، وادی 'حمض' اور وادی سرحان وغیرہ وغیرہ ـ وادیوں کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ پانی کا محفوظ ذخیرہ رکھنے کے سبب یہ قدیم زمانے سے فطری شاہراہوں کا کام بھی دیتی چلی آرہی ہیں اور جب یہ خشک ہوتی ہیں تو مسافر ان پر سفر کرتے ہیں چنانچہ وادی 'الرمتہ' وسط عرب سے زیریں فرات تک کئی سو میل لمبی شاہراہ کا کام دیتی رہی ہے اسی طرح وادی سرحان 'حوران' سے 'الجوف' تک تقریبا" دوسو میل پر پھیلی ہوئی ہے اور شام آنے جانے کے لۓ نہایت قدیم زمانوں سے تجارتی قافلوں کی گذرگاہ چلی آرہی ہے ـ
عرب کا نام لیتے ہی شدت کی گرمی کا تصور ذہن میں آتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں، بلاشبہ عرب کے صحرا دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ہیں چنانچہ آفتاب کی تپش سے بچنے کے لۓ صحرانشین بدو سفر کے لۓ رات کا انتخاب کرتے تھے صحرا کی لو جسے "سموم" کہا جاتا ہے ایسی قاتل ہوتی ہے کہ اس کی زد میں ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا سموم جسے "بادحمیس" بھی کہتے ہیں بحراحمر اور خلیج فارس کے ساحلی علاقوں مثلا" جدہ اور مسقط وغیرہ میں پریشان کن گرمی کی کیفیت ہوتی ہے تاہم عرب کی آب و ہوا کا یہ تصور درست ہونے کے باوجود صرف جزوی ہے اور قدرے مبالغہ آمیز بھی ـ سندھ کے ریگستانوں اور عراق کے بعض علاقوں کے درجہ حرارت کا ریکارڈ عرب سے زیادہ پایا گیا ہے عرب کے تمام علاقوں کی آب و ہوا بھی یکساں نہیں مثلا" مکہ کی آب و ہوا شدید گرم ہے لیکن مدینے کا موسم نسبتا" معتدل ہے طائف گرمیوں کے لۓ ایک خنک مقام ہے جزیرہ نما عرب کے بعض حصوں کی آب و ہوا سال بھر صحت بخش اور خوشگوار رہتی ہے سردیوں میں شمالی نجد ميں کہر اور دھند عام ہوتی ہےـ صحرا کی راتیں یخ بستہ ہوتی ہیں کیونکہ ریت جتنی جلدی گرم ہوتی ہے اتنی ہی تیزی سے ٹھنڈی بھی ہوتی ہے شمال کی طرف سے آنے والی ہوا حد درجہ سرد ہوتی ہے بارش اگرچہ کم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہوا جب ہوتی ہے تو چند ہی روز میں طوفانی زور شور دکھاتی ہے اور وقتی طور پر سیلابی صورت اختیار کر جاتی ہے سعودی عرب کے پرفضا مقام "ابہاء" میں کبھی کبھی برف باری بھی ہو جاتی ہے اپریل ۱۹۸۱ ء میں ابہاء میں بہت برف باری ہوئی تھی جس کی تہہ بعض مقامات پر پانچ پانچ فٹ دبیز تھی ـ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں