منگل، 14 جنوری، 2014

ہندوستان میں عرب مسلمان:

تجارت کی غرض سے عرب تاجر ہندوستان کے ساحلوں پر آتے جاتے رہتے تھے اس سلسلے میں ایک بڑی تعداد سری لنکا میں آباد ہو گئی تھی اس کے علاوہ مکران کے ساحلی علاقوں میں بھی عرب مسلم آبادیاں تھیں ایک روایت کے مطابق فتح سندھ سے قبل عرب مسلمان سندھ میں بستے تھے پانچ سو عرب مسلمان مکران سے سندھ میں آکر آباد ہو گئے تھے دیبل کی بندرگاہ کی وجہ سے بھی سندھ میں مسلمان آبادیاں تھیں ٹھٹہ کے قریب مکلی کے قبرستان میں صحابیٕ رسول اور تابعین کے مقبروں کی روایتیں ملتی ہیں- عربوں کا بڑا مرکز مالدیپ کا جزیرہ تھا جس کو عرب کبھی جزیرہ "المہل" اور کبھی ان چھوٹے چھوٹے سب جزیروں کو ملا کر "دیبات" کہتے تھے بعض روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب مسلمانوں کا دوسرا مرکز ہندوستان کا وہ آخری کنارہ تھا جس کو ہندوؤں کے پرانے زمانے میں "کیرالہ" کہتے تھے اور بعد کو "ملیبار" کہنے لگے یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے بہت سے عرب تاجر بس گئے تھے یہ روایت بھی ملتی ہے عربوں کے آنے سے یہاں دولت کی ریل پیل کی وجہ سے بہت خوشحالی آگئی تھی جس کی وجہ سے عربوں نے اس جگہ کو "خیراللہ" کا نام دیا جو کثرت استعمال سے کیرالہ ہوگیا روایت میں قدیم مسجد کا ذکر بھی ملتا ہے جس کا نام "چیرا من مسجد" جو یہاں کے راجہ چیرا من پیرو مال کے نام پر رکھا گیا جو مشرف بااسلام ہو کر مکہ گیا تھا اس مسجد کی تعمیر مالک دینار نے کی جو تابع صحابی تھے- تجارت کے علاوہ عربوں کے ہندوستان پر حملوں کو بھی تاریخ میں عربوں کی آمد کی وجہ بتایا جاتا ہے- حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں عرب جہازوں کے بیڑے کسی معقول بندرگاہ کے حصول کیلئے ہندوستان کے ساحل پر آئے جہاں آج بھی ممبئی کا پررونق شہر آباد ہے- تھانہ "تانہ" ایک چھوٹا سا بند تھا ١٥ھ بمطابق ٦٣٦ میں اس بندرگاہ پر عربوں نے بحرین کے گورنر کے حکم پر پہلا حملہ کیا اس زمانے میں ایک دوسرے عرب مغیرہ نامی شخص نے دیبل پر جو سندھ کی بندرگاہ تھی جو ٹھٹہ یا موجودہ کراچی کے قریب تھی حملہ کیا- اس کے چند برس بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعلیٰ عنہ کے زمانے میں ایک دریائی دستہ اس بندرگاہ کی دیکھ بھال کرکے واپس چلا گیا حضرت علی رضی اللہ تعلیٰ عنہ کے عہد ٣٩ھ بمطابق ٦٦٠ سے ایک عرب سردار باقاعدہ ان اطراف کی نگرانی کرنے لگا اور آخر وہ مارا گیا ٤٤ھ بمطابق ٦٦٥ میں امیر معاویہ نے مہلب نامی سردار کو سندھ کی سرحد کا نگران بنا کر بھیجا اس بارے میں فرشتہ کہتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے جس عرب مسلمان نے معرکہ آرائیاں کیں وہ مہلب ابی صفرہ تھا اس کے بعد عربوں کی حکومت میں یہ ایک مستقل عہدہ قرار پا گیا-
٨٦ھ  بمطابق ٧٠٥ میں دمشق کے تخت شاہی پر جب ولید اموی بیٹھا اور اس کی طرف سے حجاج بن یوسف عراق، ایران، مکران اور بلوچستان یعنی ریاست کے مشرقی مقبوضات کا نائب مقرر ہوا تو اس نے ہندوستان اور اس کے جزیروں کے ساتھ اپنے تعلقات اور مضبوط کئے عرب تاجر برابر آتے جاتے رہتے تھے مگر ساتھ ساتھ ہندوستان کے اکثر ساحلوں سے بحری قذاق ان کے بحری قافلوں پر ڈاکہ زنی کرتے تھے واقعہ یہ ہے کہ سری لنکا میں کچھ عرب تاجر رہتے تھے ان کا وہاں انتقال ہو گیا سری لنکا کے راجہ نے ان کی عورتوں اور بچوں کو ایک جہاز پر سوار کرکے عراق روانہ کیا راستے میں سندھ کی بندرگاہ دیبل کے قریب ڈاکوؤں نے انھیں لوٹ لیا اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا ان عورتوں نے مصیبت کے وقت حجاج کی دہائی دی- حجاج بن یوسف نے سندھ کے راجہ داہر کو خط لکھ بھیجا کہ ان عورتوں اور بچوں کو حفاظت کے ساتھ میرے پاس بھجوا دو- راجہ داہر نے معذرت کی کہ دریائی ڈاکو ہماری دسترس سے باہر ہیں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کہا جاتا ہے کہ راجہ داہر نے خواتین اور بچوں کو دینے سے انکار کر دیا تھا یہ منطقی طور غلط ہے کیونکہ عربوں کی دھاک پورے عالم پر مسلم ہو چکی تھی راجہ داہر انکار کی مجال نہیں کر سکتا تھا بلکہ معذرت ہی کر سکتا تھا جو اس نے کی چنانچہ حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان بھتیجے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں چھ ٦ ہزار فوج سندھ روانہ کی- ٩٣ھ بمطابق ٧١٢ میں محمد بن قاسم سندھ پہنچا اور تین برس کے عرصے میں "کشمیر صغیر" عرب پنجاب کو کشمیر صغیر کہتے تھے، کی سرحد اور ملتان سے مالوہ کی سرحد تک قبضہ کر لیا اس نے سندھ میں نہایت عدل اور انصاف کے ساتھ پرامن سلطنت قائم کی- محمد بن قاسم نے جب ملتان فتح کیا تو اس نے ملتان کا بت خانہ اسی حال پر چھوڑ دیا اور بت کے گلے میں گائے کی ہڈی باندھ دی اس سے محمد بن قاسم شاید یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہم گائے کھانے والے ہیں جبکہ گائے پوجنے والوں کے بتوں کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں ہے محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے کیلئے الگ جامع مسجد بنوائی محمد بن قاسم کے بعد مختلف گورنر یہاں آتے رہے- ١٠٧ھ میں جنید نامی شخص گورنر ہو کر آیا یہ بلند حوصلہ حاکم تھا اس نے سندھ سے کچھ پر حملہ کیا یہ گجرات تک پہنچا وہاں سے وآپس سندھ آگیا- ١٣٣ھ بمطابق ٧٥١ میں اموی کی جگہ عباسی آگئے شام کی جگہ عراق سلطنت کا دارالخلافہ قرار پایا اور حکومت کا مرکز دمشق سے بغداد چلا گیا اس انقلاب نے ہندوستان کو عرب کے زیادہ قریب کر ١٤٠ھ  بمطابق ٧٥٩ میں ہشام سندھ کا گورنر ہو کر آیا اس نے گندھار پر قبضہ کیا یہاں اس نے اپنی فتح کی یادگار کے طور پر ایک مسجد بنوائی یہ سندھ کے بعد ہندوستان میں دوسری مسجد تھی-
بغداد کی سلطنت معتصم باللہ عباسی تک جس کی وفات ٢٢٧ھ میں ہوئی مضبوط رہی اور اس کے بعد روز بہ روز ایسی کمزور ہوتی گئی کہ اس کا تعلق سندھ اور ہندوستان سے ٹوٹ گیا کچھ دن تک عرب امراء یہاں خود مختار بنے رہے لیکن بالآخر ہندو راجاؤں نے پھر سے قبضہ کر لیا اور بعد میں صرف دو مشہور عرب مسلمان ریاستیں قائم رہ گئیں جن میں ایک ملتان میں تھی اور دوسری سندھ کے غربی شہر منصورہ میں تھی- یمن و حجاز کے بہت سے قبیلے یہاں کے مختلف شہروں میں مستقل طور پر آباد ہو گئے پہلے سے تجارت کی غرض سے آباد عرب مسلمان جو ساحلوںپر آباد تھے ان سے ان کے تعلقات کیونکہ نسبی تھے لہٰذا ملنے جلنے کی وجہ سے پورے ہندوستان میں آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا اس طرح سے تقریبآ پورے ہندوستان میں عربوں کی آبادیاں قائم ہوتی گئیں-

2 تبصرے:

  1. السلام علیکم
    براہ کرم اس م‏ضمون اور کتاب کا عکمل حوالہ مع صفحات نمبر چاہیے مثلا
    محمد یامین،رود قریش،۔۔۔۔۔۔۔۔پبلشرز؟ سن؟ صفحہ

    جواب دیںحذف کریں