منگل، 14 جنوری، 2014

قدیم عرب و ہند کے تعلقات:

عرب اور ہندوستان دونوں ملک دنیا کے دو عظیم الشان قوموں کی مذہبی تیرتھ اور عبادت گاہ ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ دو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے نزدیک پاک اور مقدس جگہیں ہیں- حدیثوں اور تفسیروں میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ ہے وہاں متعدد روایتوں میں اسی ضمن میں یہ بیان ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب آسمان سے زمیں پر بھیجے گئے تو "سراندیپ" سری لنکا میں انھوں نے پہلا قدم رکھا جس کا نشان سری لنکا کے پہاڑ پر پائے جانے کی روایات ملتی ہیں پہلے سری لنکا ہندوستان کے جنوبی حصے میں واقع تھا جبکہ موجودہ دور میں آزاد مملکت کی حیثیت رکھتا ہے-
روئے زمیں پر اولین انسان کے قدم کا نقش
عرب میں متعدد قسم کی خوشبوئیں اور مصالحے اسی جنوبی ہند سے جاتے تھے اور پھر عربوں کے ذریعے تمام دنیا میں پھیلتے تھے اس لیے یہ روایت عام ہے کہ یہ چیزیں ان تحفوں کی یادگار ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے ایک اور روایت کے مطابق امرود بھی جنت کا پھل تھا جو ہندوستان میں بکثرت پایا جاتا ہے- جب آدم علیہ السلام ہندوستان میں اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں امانت تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کا اللہ کے دین یعنی اسلام سے قدیم رشتہ ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "مجھے ہند کی جانب سے ربانی خوشبو آتی ہے" یہ روایت رجال حدیث کے لحاظ سے کم درجہ ہو سکتی ہے تاہم اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا روحانی رشتہ ازل سے قائم ہے- حضرت آدم علیہ السلام ہند سے سفر کرتے ہوئے عرب کے مرکزی شہر مکہ میں پہنچ کر اللہ کے حکم پر کعبة اللہ کی تعمیر فرماتے ہیں اس طرح ہند و عرب کے درمیان پہلا سفر دونوں ملکوں کے درمیان سفری راستہ ہونے کی ازلی و قدرتی علامت ہونے کا اظہار کرتا ہے جبکہ دوسری طرف بحری راستہ بھی قدیم زمانے سے ہند و عرب کو باہم مربوط رکھے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے ہند و عرب کا تجارتی رشتہ قائم ہے-
عرب و ہند کے درمیان تجارت بنیادی اور وسیع پیمانے پر ہوتی تھی جن میں ضرویات زندگی کی چیزیں ہند سے عرب لائی جاتی تھیں جبکہ عرب سے پرتعیش اشیاء منگوائی جاتی تھیں- کسی اجنبی ملک سے اشیاء کے ساتھ ان کے نام بھی آتے ہیں عرب میں ہندوستان سے مصالحہ جات، جڑی بوٹیاں، کپڑا اور دیگر اشیاء لائی جاتی تھیں جن کے نام ظاہر کرتے ہیں کہ یہ اشیاء عرب کی اصل پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ ہندوستان سے عرب لائی جاتی تھیں مثلاً مصا لحوں میں عربی قرنفل ہندی کنک پھل 'لونگ'، عربی فلفل ہندی پیلی پیلا 'کالی مرچ'، عربی زنجبیل ہندی زرنجا بیرا 'سونٹھ ادرک'، عربی ہیل ہندی ایل 'الائچی'، عربی جائفل ہندی جائے پھل 'جائفل'- جڑی بوٹیوں میں عربی اطریفل ہندی تری پھل 'اطریفل' عربی شخیرہ ہندی شکھر 'توتیا' عربی ہیلج ہندی ہریرہ 'ہلیلہ'، عربی بلادر ہندی بھلاتکہ 'بھلادہ'، عود ہندی ساذج ہندی 'تیزپات' قرطم ہندی اور تمر ہندی ہندوستانی کھجور املی یہ نام اپنی نسبت اپنے ساتھ رکھتے ہیں- دیگر اشیاء میں عربی تنبول ہندی تامبول 'پان'، عربی کافور ہندی کپور 'کافور'، عربی فوفل ہندی کوبل 'سپاری'، عربی نیلوفر ہندی نیلوپھل 'نیلوفر'، عربی نیلج ہندی نیل 'نیل'، عربی موز ہندی موشہ 'کیلا'، عربی نارجیل ہندی ناریل 'ناریل' وغیرہ وغیرہ کے علاوہ اور بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو عرب میں لائی جاتی تھیں اور انھیں ہندی مشابہ مجرب الفاظ میں جانا جاتا ہے- یہ چیزیں تو خیر ہندوستان سے عرب جاتی تھیں مگر ان کے بدلے اہل عرب سے اہل ہند شراب اور گھوڑے لیتے تھے ہندوستان میں عربی شراب اور عربی نسل گھوڑوں کی بہت مانگ تھی- کھجوریں بھی دیبل کی بندرگاہ پر لائی جاتی تھیں وہاں سے ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچائی جاتی تھیں- اس تجارت کی وجہ سے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں باقاعدہ عرب آبادیاں قائم ہو گئیں تھیں جس سے یہاں کی صنعت و حرفت میں نمایاں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں جن میں تلوارسازی، اسلحہ سازی، جہاز رانی اور جہاز سازی نمایاں ہیں- پہلے پہل لوہا عرب میں دریافت ہوا تھا اس لیے عرب میں بہترین قسم کی تلواریں بنائی جاتی تھیں جو پہلے تو اہل ہند عرب سے منگواتے تھے مگر بعد میں عربوں سے یہ ہنر سیکھ لیا- عرب جہاز بنانے میں بھی بہت مہارت رکھتے تھے اور ہندوستان سے زیادہ تر تجارت بحری راستے ہی سے کی جاتی تھی اس لیے عرب سے روانہ ہونے والے بحری قافلے جب ہندوستان پہنچتے تھے تو جہازوں کو سمندری جوار بھاٹا اور گہرے سمندر میں بھاری پانی کے تھپیڑوں کی وجہ سے مرمت کی ضرورت ہوتی تھی جس کیلئے مقامی لوگوں کی مدد بھی لی جاتی تھی اس طرح مقامی طور پر بھی جہاز سازی کا ہنر متعارف ہوتا گیا اس طرح رفتہ رفتہ یہاں جہاز سازی کی صنعت قائم ہو گئی تھی-
تجارت کی غرض سے آنے والے تاجر و سوداگر عرب میں گوشت بطور غذا کے استعمال کرتے تھے اور ہندوستان میں گوشت نہیں کھایا جاتا تھا بلکہ مذہی طور پر ممانعت تھی اس لیے جو عرب بستیاں ساحلی علاقوں میں قائم ہو گئیں وہ ان عرب تاجروں کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرتی تھیں- ان سہولیات کی بناء پر یا حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے کی وجہ سے اہل عرب کا یہ دعویٰ حق بجانب تھا کہ ہندوستان سے ان کا تعلق صرف چند برس کا نہیں بلکہ پیدائش کے شروع سے یہ ملک ان کا "آبائی وطن" ہے- بعض روایات کے مطابق ہندوستان کا نام بھی عربوں کا تحفہ ہے عرب فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ہم پایہ اور ہم پلہ نہیں مانتے تھے- انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کے اول ایڈیشن ١٧٦٨ کی جلد دوئم کے عنوان "عرب" میں بھی عرب کی وجہ تسمیہ یہ ہی بتائی گئی ہے- عربوں کو اپنے قد کاٹھی اور وجاہت پر بھی بڑا غرور تھا برصغیر کے اصل باشندے کالے اور کوتاہ قد تھے اس لیے عرب انہیں "ہند" کہا کرتے تھے جس کے معنے غالباً کالے  یا گونگے کے لیتے تھے اس طرح پورے ملک کو ہند کہنے لگے اور آخر یہ ہی نام پوری دنیا میں مختلف صورتوں میں پھیل گیا- اس طرح خیبر سے آنے والی آریہ قوم نے اس کا نام "ہندوستھان" رکھا جو فارسی تلفظ میں ہندوستان ہو گیا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہند کا لفظ عربوں میں وہی مقام رکھتا جو فارسی میں لیلیٰ کا ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ عرب اپنی عورتوں کا نام ہند یا ہندہ رکھا کرتے تھے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں